Tuesday, December 29, 2015

افضل کی موجودگی میں غیر افضل کی حکمرانی


پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن سے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں. اور الله کا خاص کرم بھی ہے کے بہت سے سوالات کے جوابات مل بھی گئے ہیں. کچھ عرصہ پچھلے قرآن میں سوره بقرہ پڑھتے ہوۓ ٢٤٦ آیت گزری. آیت ہے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ...
ترجمہ: کیاتم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو موسیٰ کے بعد نہیں دیکھا جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم الله کی راہ میں لڑیں...

اس آیت میں دو تین باتیں بڑی غور طلب ہیں. پہلی بات تو یہ کے بنی اسرائیل نے ایک نبی سے کہا کے ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو. تو پہلا سوال کے ایک نبی کے ہوتے ہوۓ بادشاہ کا کیا کام؟ دوسری بات یہ ہے کے یہ بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست بنی اسرائیل نے دی نہ کہ الله نے حکم دیا. اور تیسری بات جو کہ سب سے اہم ہے کے نبی کو ایک امتی پر فضیلت کو سب ہی مانتے ہیں لیکن جب بنی اسرائیل نے ایک بادشاہ مانگا تو نبی بادشاہ نہیں بنا بلکہ ایک امتی بادشاہ بنا جس کا ذکر اگلی آیت ٢٤٧ میں آیا ہے

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک الله نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے انہوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہو سکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی پیغمبر نے کہا بے شک الله نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخ دی ہے اور الله اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے

تو الله تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرتے ہوۓ طالوت کو بادشاہ بنا دیا.. اس آیت میں بنی اسرائیل کا اعتراض بھی آیا ہے اور اسکا جواب بھی. بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کے اس کے پاس مال و دولت نہیں تو الله نے جواب دیا کے اس کے پاس علم ہے اور جسم میں فراخی ہے.

یہاں پر اگر صرف دینی علم کی ضرورت ہوتی تو الله کے نبی سے زیادہ کس کے پاس دینی علم ہوتا ہے؟ تو الله پھر اپنے نبی کو ہی حکمران بنا دیتا.. تو دینی علم کی ضرورت تو ہوتی ہے لیکن ساتھ میں دنیاوی علم کی اہمیت بھی ادھر ظاہر ہوتی ہے.

دوسری چیز یہ ہے کہ جسم کی فراخی سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کے وہ کوئی باڈی بلڈر تھے. بلکہ جسم کی فراخی سے مراد ایک چست و توانا جسم. اس سے ایک چیز جو اور واضح ہوتی ہے کے ایک توانا اور تندرست انسان ہی زیادہ علمی سمجھ بوجھ رکھنے کے قابل ہے.

تو ان دو آیتوں سے دو باتیں تو واضح ہو گئیں کے سمجھدار اور تندرست و توانا انسان کو ہی حکمران بنانا چاہیے. اس سے کچھ آیتوں بعد الله نے آیت ٢٥١ میں فرمایا

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاء وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
ترجمہ: پھر الله کے حکم سے مومنو ں نے جالوت کے لشکروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو مار ڈالا اور الله نے سلطنت اور حکمت داؤد کو دی اور جو چاہا اسے سکھایا اور اگر الله کابعض کو بعض کے ذریعے سے دفع کرا دینا نہ ہوتا تو زمین فساد سے پُر ہو جاتی لیکن الله جہان والوں پر بہت مہربان ہے

اس آیت میں الله نے بتایا کے طالوت کے بعد داؤد کو حکومت دی. اس آیت میں داؤد کی بہادری اور جسمانی طاقت کا بھی بتا دیا کے انھوں نے جالوت کو قتل کیا. ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کے اور داؤد کو سکھایا یعنی بہت سا علم بھی دیا. تو حکمران کی جی دو شرائط آیت ٢٤٧ میں بتائی تھیں علم اور جسمانی صحت وہ حضرت داؤد میں بھی پوری طرح موجود تھیں.

سوره نمل میں کی آیت ١٦ میں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اورہمیں ہر قسم کے سازو سامان دیے گئے ہیں بے شک یہ صریح فضیلت ہے

اب یھاں پر ایک اہم نقطہ ملتا ہے. حضرت سلیمان حضرت داؤد کے بیٹے ہیں اور حضرت داؤد کے بعد حکمرانی  حضرت سلیمان کے پاس گئی ہے. جس سے معلوم ہوا کے اگر بیٹا اس قابل ہے اور قرآن نے جو شرائط رکھی ہیں اس پر پورا اترتا ہے تو حکمرانی باپ سے بیٹے میں منتقل ہو سکتی ہے. یھاں پر یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کے طالوت کی حکمرانی کے دور میں ایک نبی موجود تھے اور حکمرانی پھر بھی الله نے طالوت کو عطا کی نہ کے نبی کو. تو نبی ہونا بھی حکمرانی کے لئے کافی نہیں اور اگر حضرت سلیمان کے دور میں کوئی ان کا امتی حضرت سلیمان سے زیادہ حقدار ہوتا تو حکمرانی الله اس کو عطا کرتا جیسا کہ الله نے طالوت کو حکمرانی عطا کر کے دکھایا تھا. اس سے ثابت ہوتا ہے کے الله نے حضرت سلیمان کو حکمرانی ان کی نبوت کی وجہ سے نہیں بلکہ انکا حکمرانی کے قابل ہونے کی وجہ سے عطا کی.

ان آیتوں میں الله نے ہمیں کوئی بنی اسرائیل کی تاریخ نہیں بتانی تھے بلکہ ہماری لئے ہدایت اور رہنمائی اور اصول بتائے ہیں. ویسے تو ہم زبان سے کہتے ہیں کے قرآن کی ایک ایک آیت میں علم کا سمندر ہے پر اس علم کے سمندر میں سے کچھ حاصل کرنے کے لئے ہم تیار نہیں. میری الله سے دعا ہے کے الله مجھ سمیت ہمیں ان آیات کو سمجھنے اور ان میں چھپے بیش بہا ہدایت رہنمائی کے نگینوں سے استفادہ کرنے کی توفیق دے. امین

Tuesday, December 15, 2015

حضرت عائشہؓ کی عمرنکاح، قرآن کی رو سے

حضرت عائشہ کی ٦ سال کی عمر میں نکاح اور ٩ سال کی عمر میں شادی ایک ایسی چیز ہے جس پر غیر مسلموں نے ہمیشہ اعتراض کیا ہے. اگرچہ بہت سے دلائل اور واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے یہ ٦ سال کی عمر میں نکاح کی روایت صحیح نہیں ہے لیکن ابھی بھی مسلمانوں کی ایک اکثریت اس پر یقین رکھتی ہے اور اس کے جواز کے حق میں ایک مسلمان کی حیثیت سے دلیلیں اور تاویلیں بھی دی جاتی ہیں.

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک غیر مسلم جو کہ اسلام کے بارے میں پڑھ کر اور سمجھ کر مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کے لئے یہ تاویلیں بے معنی ہیں. اور اس کے اندر نبی کے لئے کوئی احترام اور عقیدت کا جذبہ بھی نہیں ہیں. بلکہ وہ نبی کی شخصیت کو پرکھ رہا ہے اورایک مسلمہ معاشرتی معیار پرجانچ رہا ہے اور وہ ان تاویلوں سے قائل نہیں ہونے لگا.

میں خود تو بہت عرصہ سے اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تھا کیونکہ اور بہت ساری روایات کی وجہ سے یہ بات جچتی نہیں تھی کے حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت ٦ سال ہو سکتی ہیں کیونکہ بدر اور احد کی جنگ میں شریک ہوئیں. اور اس وقت آپ کی عمر اس معروف روایت کے مطابق آپ کی عمر  ٩، ١٠ سال بنتی ہے. واضح رہے کے ان جنگوں میں نبی اکرم نے ١٤، ١٤ سال کے لڑکوں کو بھی شریک نہیں کیا تھا. حضرت عائشہ ان جنگوں میں نرسنگ کے لئے شامل ہوئی تھیں. تو ایک ٩، ١٠ سال کی عمر کی لڑکی کے لئے  زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جہاں پر خون اور کٹے ہوۓ اعضاء کے ساتھ بھی مجاہدین ا سکتے ہیں. لیکن میری خواہش تھی کہ قرآن سے کوئی دلیل ملے جس سے ثابت ہو کہ اس روایت کو بیان کرنے میں کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے. کیونکہ قرآن نے خود کہا کہ

مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ.(الانعام، ٦ : ٣٨)
ترجمہ: ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی

تو الحمد الله کچھ دن پہلے سوره نسا کا ترجمہ پڑھتے ہوۓ آیت ٦ پڑھی
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ

ترجمہ: اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو

آیت یتیموں کے مال کے بارے میں ہیں لیکن اس میں ایک اہم بات جو الله نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تک کے وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جایئں.
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کے نکاح کی ایک کم از کم عمر ہے اور اس سے پہلے نکاح نہیں ہو سکتا. اس آیت میں ساتھ میں الله نے یہ بھی کہا کہ ان میں ہوشیاری بھی دیکھو. اس سے یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے کہ جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا بھی واضح ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ اکثریت میں ذہنی پختگی بھی جسمانی صحت کے ساتھ ہی آ جائے گی.

اب یتیموں کی پرورش اور ان کے مال کی دیکھ بھال پاکستانی قانون میں میرے علم کے مطابق ١٨ سال تک ہے اور دیگر مسلم ممالک میں یہ عمر مختلف ہو سکتی ہیں لیکن میرا نہیں خیال کے کسی مسلم ملک میں یتیموں کی دیکھ بھال صرف ٦ سال تک ہے.

سوره بنی اسرئیل کی آیات ٣٤ میں پھر الله نے نکاح کی کم از کم عمر کیا ہے اس کا بھی تعین کر دیا. آیت ہے
وَلَا تَقۡرَبُواْ مَالَ ٱلۡيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحۡسَنُ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ أَشُدَّهُ ۥ‌ۚ وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِ‌ۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولاً۬ (٣٤)
اور تم یتیم کے مال کے قریب مت جاؤ مگر ساتھ اس طریقے کے کہ وہ بہت ہی اچھا ہو یہاں تک کہ یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے' اور تم عہد کو پورا کرو، بلاشبہ عہد (اس کی بابت) بازپرس ہو گی.

اور جوانی کی عمر کسی بھی زمانے اور معاشرے میں ٦ سال سے نہیں شروع ہوتی. جیسا کے ہمیں معلوم ہے کے الله کے نبی مجسم قرآن تھے اور آپ کو الله نے جہاں عام مسلمانوں سے علیحدہ اختیارات دیے وہاں ان اختیارات کو قرآن میں بیان کیا جیسے زاید بیویوں کی اجازت یا طلاق نہ دینے  کا حکم لیکن الله نے نکاح صغیرہ کی کوئی چھوٹ نبی کو قرآن میں نہیں دی.

اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کے ٦ سال کی عمر میں حضرت عائشہ کا نکاح والی روایت میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے کیونکہ قرآن اس کم سنی کے نکاح کی اجازت نہیں دیتا اور میرا یقین ہے کہ نبی نے قرآن اور شریعت سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھایا

Thursday, November 12, 2015

حضرت عائشہؓ پر تہمت اور کچھ تاریخی حقائق


بخاری شریف کی روایت ٢٦٦١ جو جلد چار میں ائی ہے جو ایک بہت لمبی روایت ہے بلکہ قصّہ ہے جو ٦ - ٧ صفحات پر مشتمل ہے. یہ قصّہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے. روایت اتنی لمبی ہے کے اسکو شامل کیا تو بلاگ بہت بہت طویل ہو جائے گا اس لئے روایت کا لنک دیا جا رہا ہے جہاں پہلے روایت پڑھ لیں پھر اس پر کچھ دلائل پیش کیے جایئں گے










پہلی بات: ایک آدمی چاہے کتنا بھی ہلکا ہو لیکن ہودج میں بیٹھے گا تو اسکے وزن میں ایک نمایاں اضافہ ہو گا کیونکہ ہودج خود کچھ بہت بھاری نہیں ہوتا. دوسرے بات کے کیا اٹھانے والوں نے کچھ متنبہ بھی نہیں کیا کے ہم ہودج اٹھانے لگے ہیں تو مضبوطی سے بیٹھ جایئں؟ کیا وہ اتنے غیر ذمہ دار ہوتے تھے؟
دوسری بات: اسی روایت میں آگے چل کر یہ بیان کیا گیا ہے کے کچھ دنوں بعد حضرت عائشہؓ ام مسطح کے ساتھ حاجت کے لئے جا رہی تھیں اب سوال یہ ہے کے جنگل میں حضرت عائشہؓ اکیلے گئیں اور مدینہ میں آپ ایک عورت کے ساتھ جا رہی تھیں؟ کیا جنگل میں کسی ساتھ کے ساتھ جانا زیادہ ضروری نہیں؟
تیسری بات: جب حضرت عائشہؓ نے اپنی امی سے ان افواہوں کا ذکر کیا تو انھوں نے سوکنوں پر الزام ڈال لیا. جب کہ سوکنوں کا ان افواہوں میں کہیں ذکر نہیں اتا. کیا اس سے حضرت عائشہؓ کی والدہ کو بہت ہی عامیانہ سی عورت نہیں دیکھایا گیا

چوتھی بات: الله کے نبی نے مشورہ لینے کے لئے حضرت اسامہ کو بلایا جب کے اس وقت حضرت زید زندہ تھے اور الله کے نبی کا حضرت زید سے جو انس اور اعتماد تھا وہ کوئی انہونی بات بھی نہیں. اور حضرت اسامہ خود بمشکل ١٣ سال کے ہوں گے تو ایک ایسا اہم معاملہ جو نبی کی ذات سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے اس پر آپ کیا حضرت زید سے مشورہ کرنا زیادہ مناسب نہیں سمجھیں گے؟


پانچویں بات: اسی روایت میں آگے جا کر اتا ہے کے نبی نے بریرہ سے حضرت عائشہؓ کے بارے میں دریافت کیا؟ یاد رہے کے یہ روایت ٥ ہجری کی ہے اور اس دور تک مسلمانوں کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی اور بہت سے روایات میں اتا ہے کے مسلمانوں کے پاس کھانے کو کھجور اور دودھ ہی ہوتا تھا بس. مزید یہ کے اسی روایت کے شروع میں ہےکے مسلمانوں کی غذا معمولی تھی اور عورتوں کا وزن کم ہوتا تھا لیکن ایک عورت جو سوئی رہے اور روٹیاں کھائے اسکا وزن کم ہو نہیں سکتا.

چھٹی بات: دوسری روایات میں اتا ہے کے حضرت فاطمہؓ نے صلح حدیبیہ کے بعد نبی سے ایک خادمہ مانگی تو آپ نے کچھ کلمات سکھا دیے اور یہ روایت جو اس سے بہت پہلے کی ہے اس میں ہے کے حضرت عائشہؓ کی اپنی خاص خادمہ ہیں؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کے نبی اپنی بیٹی کو تو کوئی خادمہ نہ دیں پر بیوی کو دے دیں؟؟

ساتویں بات: حضرت بریرہ فتح مکّہ کے بعد خادمہ بنی ہیں

آٹھویں بات: اسی روایت میں حضرت سعد بن معاذ کو اوس کا سردار بتایا گیا ہے جب کے جس وقت کا واقعہ ہے اس وقت حضرت سعد سردار نہیں تھے بلکہ شہید ہو چکے تھے

اس حدیث میں اور بھی بہت سے سقم ہیں جس کی وجہ سے اس پر بہت سوالات اٹھتے ہیں. اگرچہ ہم اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی عظمت پر لے جاتے ہیں لیکن کیا اس حدیث سے یہ نہیں لگتا کے

١. نبی نے غیر ذمہ دار تھے اور اگلے دن دوپہر کو حضرت عائشہؓ قافلے سے مل گئیں لیکن نبی کو معلوم نہیں ہوا؟
٢. ایک اہم گھریلو اور ذاتی پر رائے کے لئے آپ ایک بچے سے مشورہ لے رہے ہیں جب کے ان کے والد بھی حیات ہیں
٣. حضرت ابو بکر کی بیوی نبی کی دوسروں بیویوں کے بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتی تھیں جب کے قرآن کہتا ہے کے وہ سب امہات المومنین ہیں
٤. مسلمانوں کے قبیلوں کے سردار اور مسلمان اپس میں جھگڑالو تھے
٥. اسی روایت میں ایک اور جگہ بیان کیا گیا ہے کے جب حضرت عائشہؓ کے بارے میں بریرہ نے گواہی دی کے میں نے ان کے اندر کوئی عیب نہیں دیکھا تو حضرت علی نے ان کو مارا کے سچ سچ بتاؤ. کیا الله کے نبی کے سامنے تشدد کر کے گواہیاں لی جاتی تھیں؟
٦. اس روایت میں یہ بھی بیان ہے کے حضرت عائشہؓ لاپرواہ تھیں اور بکریاں آٹا کھا جاتی تھیں اور وہ سوئی رہتی تھیں.
٧. حضرت عائشہؓ ایک جنگی مہم میں زیورات لے کر گئی ہوئی تھیں
٨. تیمم کی سہولت کی جو روایت ملتی ہے اس میں بھی حضرت عائشہؓ کا ہار گم جاتا ہے اور حضرت ابو بکر (رض) اس پر ناراض ہوتے ہیں کے اس کی وجہ سے ہماری نماز نکل گئی تو اس پر تیمم کا حکم آ جاتا ہے
٩. ایک پیدل شخص ایک قافلے کو آدھے دن کے اندر اندر پا لیتا ہے. کیا اتنی جلدی کوئی قافلے کو پہنچ سکتا تھا؟
١٠. اس روایت میں اس پروپگنڈے کو پھیلانے میں کسی زوجہ نبی کا ذکر نہیں لیکن حضرت عائشہؓ کی والدہ پھر بھی الزام کسی سوتن پر لگا رہی ہیں؟ کیا یہ بات اس روایت کو ہی غلط نہیں کہہ دیتا؟
١١. روایت میں جن لوگوں نے یہ تہمت لگائی، تاریخ میں ان کو کسی سزا کا ذکر نہیں ملتا، جب کہ قرآن تہمت لگانے والوں پر بھی کڑی سزا کا کہتا ہے؟ کیا یہ الله کی شریعت کے منافی نہیں؟
١٢. مزید یہ کہ حضرت علی نے اخر میں حضرت عائشہ کو طلاق دینا کا مشورہ دیا جب کہ اس سے پہلے ہی سوره احزاب میں نبی اکرم کو حکم آ گیا تھا کہ اب آپ کسی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے تو کیا زہری کے مطابق حضرت علی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا؟


الله نے قرآن میں فرمایا کے نبی کی زندگی اسوہ حسنہ ہے تمام لوگوں کے لئے کیا یہ واقعہ اس آیات کے خلاف نہیں جا رہا؟ حضرت عائشہؓ سے کسی نے نبی کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کے کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ نبی کی زندگی قران کا عملی نمونہ ہے. اور قرآن میں حضرت یوسف کے قصّے میں جب زلیخا نے حضرت یوسف پر الزام لگایا تو والی مصر نے حضرت یوسف سے بھی پوچھا جب کے پوری روایت میں نبی نے حضرت عائشہؓ سے نہیں پوچھا کے تم پر یہ الزام لگایا گیا ہے...

اسلام کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش حضرت ابو بکر کے دور سے ہی شروع ہو گئی تھیں اور حضرت عثمان کے دور میں کافی بڑھ گئی تھیں. یہ محاظ ایک نہیں بلکہ کئی جگہوں پر شروع کیا گیا تھا اور اس میں ایک حصہ اسلام کی تاریخ کو مسخ کر کے اس میں شامل کچھ شخصیات کے کردار کو مجروح کرنا بھی شامل تھا جن کا اسلام کے فقہ اور اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے میں اہم کردار رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نبی کی زندگی کو بھی داغدار بنا کر پیش کرنا تھا جیسا کے پہلے نبیوں کے ساتھ تورات اور انجیل میں کیا گیا. لیکن الله نے قرآن کو محفوظ رکھنے کا وعدہ کر کے ہمارے اپر ایک عظیم احسان کیا ہے جو ہر بات کو پرکھنے کے لئے ہمارے پاس ایک مستند، مکمل اور دائمی ذریعہ ہے.

اخر میں قرآن سے ہی آخری دلیل، جن آیات کے ساتھ اس واقعہ کو جوڑا جاتا ہے اس کی آخری آیت ہے
أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سوره النور، آیت ٢٦)
اس کا ترجمہ یہ بنتا ہے
وہ لوگ اس سے پاک ہیں جو یہ کہتے ہیں ا ن کے لیے بخشش اورعزت کی روزی ہے

قرآن میں  أُوْلَئِكَ کا لفظ آیا ہے بریت کے لئے اور  أُوْلَئِكَ تین یا اس سے زیادہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے. تو الله تین یا اس سے زیادہ لوگوں کی بریت کا اعلان کر رہا ہے قرآن میں جب کہ واقعہ میں صرف دو لوگوں کا ہی ذکر ہے. تیسرا کون تھا؟ تو یا تو قرآن غلط ہے یا پھر یہ واقعہ غلط ہے؟

میرا ایمان کہتا ہے کے قرآن تو ٹھیک ہے پر یہ واقعہ غلط ہے.

Thursday, October 22, 2015

واقعہ کربلا اور ایک مختصر تحقیقی مقالہ

واقعہ کربلا بیشک مسلم دنیا کا ایک سب سے اندوہناک واقعہ گردانہ جا سکتا ہے. ہر سال اس کو منا کر ہم اس بات کی تجدید کرتے ہیں کے کیسے ایک ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہ کر حضرت امام حسین نے ہمیشہ کے لئے اپنا نام روشن کر لیا. اس واقعہ کی حقیقت ہمیشہ سے میرے ذہن میں کسی شک و شبہ سے بالا تھیں. ان کو مارنے والوں کو ہمیشہ میں نے برا ہی سمجھا. اور ان کو اچھا سمجھ بھی کون سکتا ہے.

٢٠٠٣ میں کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تقریر کرتے ہوۓ عراق پر الزام لگایا کے عراقی حکومت وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کو چھپائے ہوۓ ہے اور عراق کو ان وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اس پر حملہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے. اس تقریر کی بنا پر جو کے دنیا کے ایک بہت معتبر ادارے میں ایک بہت ہی ذمہ دار امریکی حکومتی رکن نے کی تھی کی بنا پر عراق پر حملہ کیا گیا. اور پھر ٢٠٠٩ میں امریکا نے اعلان کیا کے عراق میں کوئی وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار نہیں ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا سراغ لگانے کی مہم کو بھی ختم کر رہا ہے. ایک پورا ملک تباہ کر دیا گیا ایک جھوٹے پروپیگنڈا پر.

کچھ عرصہ بعد ایک بحث میں مجھے معلوم ہوا کے امام ابو حنیفہ نے واقعہ کربلا پر کچھ ارشاد نہیں فرمایا. جو کے میرے لئے بہت حیرت کی بات تھی کے اتنے بڑے واقعہ پر کیا کسی نے کچھ پوچھا نہیں یا کوئی سیاسی مصلحت کے تحت اس پر بولنے سے اجتناب کیا گیا کیونکہ اس واقعہ میں بہت سے فقہی پہلو بھی ہیں مثلا نماز خوف یا جابر حکمران کے خلاف کب جہاد فرض ہو جاتا ہے اور بہت سے چھوٹے بڑے مسائل ہیں. لیکن اس کا جواب ملا نہیں.

اسی طرح مقدمہ ابن خلدون میں ٣ صفحات غائب ہیں جو واقعہ کربلا سے مطلق ہیں. تاریخ ابن خلدون میں تو جو اسلامی تاریخ کے واقعات ہیں ان کی جو جو تفصیل ائی ہیں وہ بیان کر دی گئی ہیں لیکن مقدمہ ابن خلدون میں ابن خلدون نے ان واقعات پر بحث کی ہے اور اپنی ایک رائے دی ہے.

پھر الله کا کرنا ہوا کے واقعہ کربلا پر سب سے پرانی تحریر ابو مخنف (لوط بن یحییٰ) کی جو کہ شیعہ مصنف کی ہی تھی کو پڑھنے کا موقع ملا. اسکا انگریزی ترجمہ جو ایک ایرانی پبلشرز نے کیا جس کے پیش لفظ میں مترجم حامد موانی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کے اس کتاب میں کئی سقم موجود ہیں اور ترجمہ میں حاشیوں میں ان سقم کی نشاندہی کی گئی ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی کے ایک پرانی کتاب جو کے زیادہ صحیح ہونی چاہیے اس میں تصیح کی ضرورت کیوں پیش ائی. پھر محمود عباسی صاحب کی کتاب مقتل حسین پڑھی تو معلوم ہوا کے ابو مخنف کی کتاب کے تو ہر صفحے پر تاریخی اور واقعاتی غلطیاں نہیں فاش غلطیاں ہیں. ابو مخنف کی کتاب  (170)١٧٠ ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً ١١٠ سال بعد کی اور اس کتاب کو حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے. لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ طبری نے دی اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنا دیا. مزید یہ  کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ سے اتی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے.

ان تمام باتوں نے مجھے واقعہ کربلا پر مزید ڈھونڈنے پر مجبور کیا کہ معلوم کروں کہ اخر واقعہ کربلا کی حقیقت کیا ہے. اس پر میں حدیث کی ایک اولین کتابوں میں سے ایک کتاب موطا امام مالک کو کھنگالا لیکن اس میں بھی واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے. پھر میں نے سوچا کے سنی کے علاوہ شیعہ کی کتابوں میں دیکھنا چاہیے کے آیا ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسین" سے پہلے بھی واقعہ کربلا پر کوئی روایت موجود ہے واقعہ کربلا پر، تو مجھے مسند امام زید ابن علی جو کے حضرت امام حسین کے پوتے ہیں ان کی کتاب مل گئی اور اس میں بھی اس واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت یا کوئی فقہی بحث نہیں. جب کہ اس کتاب میں جنگ نهروان (جو کہ حضرت علی اور خوارج کے درمیان ہوئی) کا ذکر اور نماز خوف میں اس پر بحث کی گئی ہے. اور سب سے اہم کے حضرت زین العابدین جو
کہ ابو مخنف کے مطابق کربلا کے عینی شاہد میں سے ہیں ان سے منسوب متعدد کتب ہیں اور ان میں سے کسی بھی کتاب میں کربلا کے متعلق کوئی واقعہ یا قصہ درج نہیں.

٦٩ (69) ہجری میں اسلام کو کمزور کرنے کے لئے مختار سقفی نے توابون کے نام سے جو تحریک شروع کی وہ بھی حضرت حسین کی مبینہ شہادت کو لے کر شروع کی تاہم اس کہانی کو موصل کے قریب نینوا کے ارد گرد بنایا گیا اور حضرت امام حسین کو شہید نینوا کے طور پر مشہور کیا گیا. شہید نینوا کی کہانی کیونکہ صرف حضرت امام حسین کی ذاتی شہادت سے متعلق تھی اور اس میں عورتوں  اور بچوں کا ذکر نہیں تھا تو اس لئے وہ عوامی پذیرائی اور جذباتیت کا وہ سیلاب پیدا کرنے میں  ناکام رہی جس مقصد کے لئے اس کہانی کو گھڑا گیا تھا اسی لئے ابو مخنف نے جذباتیت اور فتنہ گری کے لئے کہانی میں عورتوں اور بچوں کے کردار بڑھائے اور کہانی کا مرکز نینوا سے کربلا (جس کا اصل نام کربغا تھا) منتقل کیا تاہم شہید نینوا سے وہ بھی جان نہیں چھڑا سکا اور نینوا کو کربلا
(کربغا) کا ہی دوسرا نام بتا دیا. جبکہ درحقیقت نینوا اور کربلا(کربغا) میں ٦٠٠ کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے. ابو مخنف کے افسانے کے مطابق حضرت حسین کے اس مبینہ سفر کا آغاز مکہ مکرّمہ سے کوفہ کی جانب ہوا تھا اور کربلا مکہ سے کوفہ کے راستے میں نہیں اتا بلکہ کوفہ سے دمشق کے راستے میں اتا ہے. اس کی تصدیق گوگل میپ سے کی جا سکتی ہے.

واقعہ کربلا ایک حقیقت ہے یا
اسلام کو منقسم کرنے کے لئے افسانہ گھڑا گیا؟ نبی اکرم متواتر کی حدیث ہے کے اسلام کو تنزلی نہیں ہو گی جب تک ١٢(12) خلفاء تم میں سے نہ گزر جائیں. اور اسلام کے پہلے ١٢(12) خلفاء میں یزید بھی شامل ہے. یہ بھی سب ہی مانتے ہیں کے حضرت امام حسین یزید کی کمان میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر میں شامل تھے. یہ بھی حقیقت ہے کے حضرت حسن اور حضرت حسین ہر سال دمشق میں حضرت امیر معاویہ کے دربار میں جایا کرتے تھے اور حضرت حسین اپنے بھائی کی وفات کے بعد بھی اس پر کاربند رہے، اگر حضرت معاویہ کسی بدکردار کو خلافت سونپنے کا سوچ رہے ہوتے تو کیا حضرت حسین ان کو متنبہ نہ کرتے یا کم از کم ان کے دربار میں جانے سے رک نہ جاتے؟ حضرت امام حسین نہ صرف دربار میں جاتے بلکہ حضرت امیر معاویہ ان کی عزت اور تکریم کرتے. اسلام کو تقسیم کرنے والوں نے پہلے ایک پروپیگنڈا کیا کہ خلافت پر حضرت علی کا حق سب سے پہلے تھا اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان نے ان سے یہ حق چھینا. اگرچہ مسلمانوں نے من حیث القوم اس پروپیگنڈا کو رد کر دیا مگر حضرت حسین کا خلافت پر حق کو تسلیم کر لیا جب کہ نہ انھوں نے یہ حق مانگا بلکہ حضرت امیر معاویہ کے ساتھ ایک دوستانہ تعلقات اور مراسم بھی رکھے. اور ایک روایت کے مطابق حضرت امیر معاویہ نے حضرت حسین کو عراق کی گورنری بھی عطا کی تھی. 

الله نے قرآن میں فرمایا کے مسلمانوں تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو اور تحقیق ہی وہ چیز ہے جو ہم نے اسلام میں کی بھی نہیں اور کرنے والے کو منع ہی نہیں برا بھلا بھی کہا. اور تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی. میری ابھی تک کی تحقیق تو یہ بتاتی ہے کے واقعہ کربلا  ١٧٠ ہجری میں گھڑا گیا اسی لئے ١٧٠ ہجری سے پرانی کتابوں چاہے وہ شیعہ لوگوں کے اپنے اماموں کی ہی کیوں نہ ہو اور حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک جیسے لوگ جو ١٧٠ ہجری سے پہلے گزر گئے انکی اس پر کوئی رائے نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک واقعہ کربلا لکھا ہی نہیں گیا تھا اور جس نے لکھا ہے اس نے خود اتنی غلطیاں کی ہیں کے یہ سچا واقعہ ہو ہی نہیں سکتا.  آپ کی رائے کا انتظار رہے گا


حوالہ جات
مقتل امام حسین انگریزی ترجمہ
محمود عباسی مقتل امام حسین
مسند امام زید ابن علی

Wednesday, October 14, 2015

حضرت عمر کی شہادت: ایک واقعہ یا ایک سازش


شہادت عثمانؓ اسلام کا پہلا اصل، سب سے بڑا اور برا فتنہ ہے اور ہم اس فتنے کو سمجھ لیں تو ہم کو آج تک کے حالات اور فتنوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی.


حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت عمرؓ بھی شہید ہوۓ لیکن حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے. حضرت عثمانؓ  کی شہادت پر بحث اور اس کے پیچھے چھپے فتنے کو سمجھنے سے پہلے حضرت عمرؓ کی شہادت پر تھوڑی سی بات کر لی جائے. حضرت عمرؓ کے پاس ایک مجوسی غلام  ابو لولوہ فیروز آیا اور اپنے مالک کی شکایت کی کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہؓ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ ٢٦ ذی الحجہ ٢٣ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد ٦٣ سال کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔

سوچنے کی بات ہے کے غلام کے نزدیک زیادتی تو اسکا مالک کر رہا تھا اور یقیناً غصّہ بھی پہلے اس غلام کو اپنے مالک پر ہونا چاہیے تو اس نے حضرت عمرؓ کو کیوں قتل کیا. دوسری بات اسکو اگر حضرت عمرؓ کا فیصلہ پسند نہیں تھا تو حضرت عمرؓ کو قتل کر کے تو اسکو پتہ تھا یقینی موت ہے اور مسلمان اس کو نہیں چھوڑیں گے. تو یہ ایک خودکشی تھی اور اس کے مسئلہ کا حل بھی نہیں تھا.

خود کش حملے آج کل جب بھی کیے جاتے ہیں وہ کسی بڑا مقصد کرنے کے لئے  کیے جاتے ہیں یا کم از کم خود کش حملہ آور کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کے اس کی موت ایک بڑے مقصد کے لئے ہے. اس طرح  خود کش حملہ کرنے والے کو یقین ہوتا ہے کے اسکے مرنے سے کوئی بڑا فائدہ اس مقصد کو پہنچے گا جس کے لئے وہ جان دے رہا ہے. حضرت عمرؓ نے ایران اور ساسانی سلطنت کو اپنے دور حکومت میں تقریباً ختم کر دیا. جنگ قادسیہ میں انکی بادشاہت کو مٹا دیا گیا تھا. ایرانیوں کا خیال تھا کے جیسے  سکندر اعظم نے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو فتح کیا لیکن اسکی موت کے ساتھ ہی وہ سب کچھ ختم ہو گیا اور سکندر کی بنائی ہوئی سلطنت قائم نہیں رہی اسی طرح حضرت عمرؓ کی موت کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جائے گا اور یہ اسلام جو تیزی سے پھیل رہا ہے  وہ رک جائے گا بلکہ کیا معلوم اسلام پھر سے واپس عرب تک ہی محصور ہو جائے.

تو ابو لولوہ فیروز درحقیقت حضرت عمرؓ کے پاس شکایت کرنے نہیں آیا تھا بلکہ حضرت عمرؓ کو شہید ہی کرنے آیا تھا. اور وہ شکایت کے بہانے جگہ اور موقع محل دیکھ رہا تھا. جیسے کوئی بھی خود کش حملہ آور پہلے جگہ اور موقع سے آگاہی حاصل کرتا ہے. یہ سازش ایرانیوں کی ہی تھی لیکن اس سازش کے پورا ہو جانے کے بعد بھی ایرانی وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے جس کے لئے انھوں نے حضرت عمرؓ کو شہید کیا تھا اور حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی اسلام پھلتا پھولتا گیا. یہاں پر یہ بھی بتانا بیجا نہیں ہو گا کے ابو لولوہ فیروز کا مزار ابھی بھی ایران میں ہے اور اس کو وہ بابا شجاع الدین (یعنی بہادر شخص) کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور برسی بھی مناتے ہیں. نیچے اس مقبرے اور اس پر لکھے الفاظ کی تصاویر ہیں. 





اخر میں ایران کا اپنے ثقافتی تفاخر پر ایک شعر جو یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کے انکو اپنے ایرانی ہونے پر مسلمان ہونے سے زیادہ فخر ہے
ز شیر شتر خوردن و سوسمار
عرب را به جایی رسیده ست کار
که تخت عجم را کنند آرزو
تفو بر تو ای چرخ گردون تفو!

اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کے یہ جو اونٹوں کا دودھ پینے والے اور گو کھانے والوں کو جو ساسانی تخت کی آرزو ہو گئی ہے اس پر اے آسمان تو پھٹ کیوں نہیں گیا.

آیندہ کی اقساط میں ہم بحث کریں گے کے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ساتھ جو سازش اور فتنہ شروع ہوا وہ کیا تھا اور کیسے آج تک مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے. اور سب سے اہم چیز کے اس فتنے میں کیا کیا حربے اور جھوٹ پھیلاے گئے

Thursday, August 20, 2015

حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ کی ولادت باسعادت


حضرت امام حسنؓ  اور حسینؓ  اسلام کی دو بلند پایا شخصیات ہیں. آپ حضرت محمّدﷺ کے نواسے ہیں اور حضرت علیؓ  اور حضرت فاطمہؓ  کے بیٹے. حضرت علیؓ  اور حضرت فاطمہؓ  کی شادی ٢ ہجری میں ہوئی.

عام تصور یہ کیا جاتا ہے کے حضرت حسنؓ  اور حضرت حسینؓ  کی ولادت ٢ اور٣ ہجری میں ہوئی جو کے کچھ تاریخی واقعات کی وجہ سے  صحیح نہیں لگتا. آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کے ان معتبر شخصیات کی ولادت کس وقت ہوئی.

بغوی نے سمک بن حرب کی سند سے قابوس بن مخارق کی روایت نقل کی ہے: فرمایا ام فضلؓ  نے حضورﷺ سے عرض کی میں نے اپنے گھر میں آپﷺ کے اعضا میں سے ایک عضو دیکھا ہے. آپﷺ نے فرمایا کے تو نے بھلائی کو دیکھا. فاطمهؓ  کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا تو اس لڑکے کو اپنے بیٹے قسم کے ساتھ دودھ پلائی گی. تو حضرت حسنؓ  پیدا ہوے.
اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں. ایک تو حضرت حسنؓ  قسم سے چھوٹے تھے. دوسرے یہ کے حضرت حسنؓ  کی پیدائش فتح مکہ کے بعد ہوئی کیونکہ حضرتؓ  عباسؓ  فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کر کے ائے. اور یہ تو ہو نہیں سکتا کے ان کی بیگم پہلے آ گئی ہوں.
امام بخاری حضرت عقبہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی سے باہر نکلے تو آپؓ  نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے پایا، آپؓ  نے انہیں اپنے کاندھے پر اٹھا لیا اور کہا:
بابی شبیہ بالنّبی
لیس شبیہا بعلی
’’میرے ماں باپ فدا ہوں، یہ تو ہو بہو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تصویر ہیں،
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشابہ نہیں ہیں۔‘‘
وعلی یضحک یہ سن کر حضرت علی مسکرا رہے تھے (۱۱۶)
اس روایت میں اہم بات یہ ہے کے حضرت ابو بکرؓ  نے حضرت حسنؓ  کو گود میں اٹھا لیا. تو اس سے ثابت ہوتا ہے کے حضرت حسن اس وقت ٣ - ٤ سال سے زیادہ نہیں تھے. کیونکہ کوئی انسان ٨ - ١٠ سال کے بچے کو گود میں نہیں اٹھاتا. تو اگر حضرت حسنؓ  ٣ ہجری کی پیدائش ہوتے جیسا کے مشہور کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو بکرؓ  کی خلافت تک ان کی عمر دس سال کے قریب ہوتی.
پھر اسی طرح ایک اور روایت ملتی ہے علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ میں اپنی کمسنی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس گیا۔ وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے میں منبر پر چڑھ گیا اور کہا:
’’اِنْزِل عَنْ مِنْبَرِ اَبِیْ وَاذْھَبْ اِلٰی مِنْبَرِ اَبِیْکَ‘‘
یعنی میرے باپ کے منبر سے اتریئے اور اپنے باپ کے منبر پر جایئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: ’’لَمْ یَکُنْ لِاَبِیْ مِنْبَرٌ یعنی میرے باپ کا منبر نہیں تھا، اور مجھے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا ۔ میں اپنے پاس پڑی ہوئی کنکریوں سے کھیلتا رہا ۔ جب آپؓ  منبر سے اترے تو مجھے اپنے گھر لے گئے پھر مجھ سے فرمایا: کتنا اچھا ہو اگر آپ کبھی کبھی تشریف لاتے رہیں ۔ (الشرف المؤبد (صفحہ ۹۳)
یہ بات بھی اس بات پر دلیل کرتی ہے کے حضرت حسین حضرت عمرؓ  کے دور میں لڑکپن کو بھی نہیں پہنچے تھے تو حضرت حسین کی پیدائش نبی کے بلکل آخری دور میں ہوئی ہو گی. اگر ٤ ہجری میں پیدائش ہوئی ہوتی تو حضرت حسینؓ  حضرت عمرؓ  کے دور خلافت میں لڑکپن کو پہنچ چکے ہوتے
اسی طرح ایک اور روایت بھی ہے کے حضرت جعفر بھی طالب حبشہ سے جب فتح خیبر کے بعد واپس مدینہ آئے تو اسکے بعد حسنؓ  اور حسینؓ  کی پیدائش ہوئی.
یہاں پر یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کے حضرت فاطمہؓ  کی دو بیٹیاں بھی ہیں. سب سے بڑی بیٹی ام کلثومؓ  ہیں جنکا نکاح حضرت عمرؓ  سے ہوا. یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ حضرت ام کلثوم سے حضرت عمر کے دو بچے بھی ہیں. جس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں کہ وہ بالغ تھیں شادی کے وقت اور شادی حضرت عمر کے خلافت کے بلکل آخری سال بھی نہیں ہوئی، اگر ١٧، ١٨ ہجری میں انکا نکاح ہوا تو زیادہ قرین قیاس یہی ہے کے  انکی پیدائش ٣ یا ٤ ہجری میں ہوئی ہو گی. کیونکہ حضرت فاطمہؓ  کی دوسری بیٹی حضرت زینب کی پیدائش عام طور پر ٥ یا ٦ ہجری بتائی جاتی ہے.
تو اگر اب ہم دیکھیں حضرت علیؓ  حضرت فاطمہؓ  سے اولاد کی ولادت کی تفصیل کچھ اس طرح بنتی ہے

  • حضرت ام کلثومؓ  ٣-٤ ہجری
  • حضرت زینبؓ  ٥ ہجری
  • حضرت حسنؓ  ٨ - ٩ ہجری
  • حضرت حسینؓ  ٩ - ١٠ ہجری

اخر میں ایک ضمنی سوال، کیا ہم کو اپنے نبیﷺ کی  فیملی کا معلوم ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کے الله کے نبیﷺ نے اپنی کس بیٹی کے بارے میں کہا کے اس نے اسلام کی خاطر سب سے زیادہ مصائب برداشت کیے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کے الله کے نبیﷺ اپنے کن نواسوں کو کندھوں پر بیٹھا کر پھرا کرتے تھے. جی نہیں حسنؓ  اور حسینؓ  نہیں ہیں. اخر میں سوال اتا ہے کے یہ عمروں میں ردو بدل  کیوں کیا گیا تو ہم اگلے بلاگز میں بتایئں گے کے یہ اسلامی تاریخ کا ایک بہت بڑا پنکچر ہے جس کی وجہ سے بیسیوں اور پنکچر لگانے کی راہ ہموار ہوئی. آپ کی تحقیقی رائے اور مثبت تنقید کا انتظار رہے گا

Sunday, April 19, 2015

حضرت عثمان کی شہادت قرآن کی روشنی میں

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلام کی قدآور اور انتہائی اہم شخصیت ہیں. آپ کو اسلام کے تیسرے خلیفہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور نبی اکرم (ص) کے داماد بھی ہیں. آپ (رض) کی اسلام کے لئے خدمات بیش بہا ہیں.

آپ (رض) کی شہادت اسلام میں پہلے اور سب سے بارے فتنے کی بنیاد ہے اور فتنہ آج تک نا صرف قائم ہے بلکے زیادہ خطرناک ہے. آپ کی شہادت کے وقت اسلام میں تین گروہ بن گئے.

پہلا گروہ: جسکی قیادت حضرت عایشہ (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) کر رہے تھے کا مطالبہ تھا کے حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کو فلفور سزا دی جائے
دوسرا گروہ: کہ رہا تھا کے حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کیا جائے اور پھر حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے
تیسرا گروہ: ان لوگوں پر مشتمل تھا جو خاموش ہو گئے تھے اور اس فتنے کے گزر جانے کے انتظار میں تھے

حضرت عثمان (رض) نا صرف اولین ایمان لانے والوں میں سے تھے بلکہ وہ دولت مند تھے اور انکی دولت ہمیشہ اسلام اور نبی اکرم (ص) کی خدمت کے لئے پیش پیش رہی ہے. صلح حدیبیہ کے وقت جب قریش مکّہ نے نبی اکرم (ص) اور صحابہ کرام(رض) کو جو عمرہ کی نیت سے آئے ہوۓ تھے کو روک لیا تو نبی اکرم (ص) نے حضرت عثمان(رض) کو اپنا سفیر بنا کر مکّہ بھیجا کے قریش کے ساتھ بات چیت سے معاملے کو حل کر سکیں

حضرت عثمان (رض) کی غیر موجودگی میں حضرت عثمان (رض) کے شہید کر دیے جانے کی افواہ پھیل گئی. اس افواہ کے موقع پر نبی اکرم (ص) نے تمام صحابہ کرام سے بیت لی. جسکو اسلامی تاریخ میں بیت رضوان کہا جاتا ہے. کیونکہ اس بیت کی تائید اور نصرت قرآن میں بھی ائی.

آئیے دیکھتے ہیں کے قران میں اسکے بارے میں کیا آیا ہے. یہ سوره فتح (٤٨) ہے اور آیات نمبر ١٠.

10: إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
اور اس کا ترجمہ
10: جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا

قران کی آیات نا صرف بہت آسان واضح بلکہ غیر مبہم بھی ہے.
یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب صلح حدیبیہ ہونے کے بعد مسلمان نبی اکرم(ص) کے ساتھ واپس مکّہ جا رہے تھے. حضرت عثمان(رض) خیر و عافیت سے نبی اکرم(ص) اور مسلمانوں کے پاس آ گئے تھے. تو آیات کا پہلا حصّہ کے "جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔" بتا رہا ہے کے یہ بیت الله سے کی گئی ہے اور الله کی رضا اور خوشنودی اس میں شامل ہے. اسی لئے اس کو بیت رضوان کے نام دیا گیا ہے.

لیکن آیات کا دوسرا حصّہ " پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا" بہت ہی واضح ہونے کے باوجود نظر انداز کیا جاتا رہا. حضرت عثمان (رض) تو خیریت سے واپس آ گئے ہیں تو اب کس عہد کو توڑنے کی بات ہو رہی ہے؟ اور اس حصّے کو مستقبل کے پیراۓ میں لکھا گیا ہے کہ یہ الله سے کیا گیا عہد مستقبل میں ہے جس کی رو سے جو اس عہد کو توڑے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا.

اور پھر تاریخ نے دیکھا کے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا گیا اور اس موقع پر اسلام میں تین گروہ بن گئے اور ان میں سے ایک گروہ نے جس میں حضرت عایشہ (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) شامل تھے نے حضرت عثمان(رض) کے قاتلوں سے فوراً بدلہ لینے کا مطالبہ کیا انہی لوگوں  کے لئے الله نے اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے اس آیت میں. 
 
اخر کس دلیل میں ہم حضرت عائشہ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہ کے اس بنیادی مطالبے کو غلط اور مبنی بر بغاوت قرار دیتے
ہیں. حالانکہ قرآن کی سوره بقرہ کی آیت ١٧٩ کہتی ہے

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 
اور اے عقلمندو تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو

ازرویے قرآن ایک مطالبے کو طبری، مسعودی، یعقوبی جیسی مجوسیوں کی تاریخ پر کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے جب کہ ان کے مقابلہ میں نہ صرف صحابہ کرام ہیں بلکہ ام المومنین کا طرز عمل بھی سامنے ہے. سچ یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) ہی ہیں جن کے قتل کے قصاص کی بیعت خود الله نے اور نبی نے حدیبیہ کے مقام پر لی تھی. اور قصاص نہ لے کر ١٤٠٠ سال سے ہم قرآن کی دوسری بات کو بھی سچا ہوتا بار بار دیکھ رہے ہیں. اس وقت قصاص لے لیا گیا ہوتا تو ہم اس خونریزی سے بچ جاتے جو قصاص نہ لینے کی وجہ سے اسی دن سے شروع ہو گئی تھی. اور جس کی تنبیہ قرآن نے ہمیں پہلے ہی کر دی تھی 

اس آیت کو بار بار پڑھنے کے بعد میرے ذھن میں تو کوئی شک نہیں رہا کے حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کو فالفور سزا دینا الله سے کیا گیا وعدہ ہے.