Wednesday, October 14, 2015

حضرت عمر کی شہادت: ایک واقعہ یا ایک سازش


شہادت عثمانؓ اسلام کا پہلا اصل، سب سے بڑا اور برا فتنہ ہے اور ہم اس فتنے کو سمجھ لیں تو ہم کو آج تک کے حالات اور فتنوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی.


حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت عمرؓ بھی شہید ہوۓ لیکن حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے. حضرت عثمانؓ  کی شہادت پر بحث اور اس کے پیچھے چھپے فتنے کو سمجھنے سے پہلے حضرت عمرؓ کی شہادت پر تھوڑی سی بات کر لی جائے. حضرت عمرؓ کے پاس ایک مجوسی غلام  ابو لولوہ فیروز آیا اور اپنے مالک کی شکایت کی کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہؓ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ ٢٦ ذی الحجہ ٢٣ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد ٦٣ سال کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔

سوچنے کی بات ہے کے غلام کے نزدیک زیادتی تو اسکا مالک کر رہا تھا اور یقیناً غصّہ بھی پہلے اس غلام کو اپنے مالک پر ہونا چاہیے تو اس نے حضرت عمرؓ کو کیوں قتل کیا. دوسری بات اسکو اگر حضرت عمرؓ کا فیصلہ پسند نہیں تھا تو حضرت عمرؓ کو قتل کر کے تو اسکو پتہ تھا یقینی موت ہے اور مسلمان اس کو نہیں چھوڑیں گے. تو یہ ایک خودکشی تھی اور اس کے مسئلہ کا حل بھی نہیں تھا.

خود کش حملے آج کل جب بھی کیے جاتے ہیں وہ کسی بڑا مقصد کرنے کے لئے  کیے جاتے ہیں یا کم از کم خود کش حملہ آور کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کے اس کی موت ایک بڑے مقصد کے لئے ہے. اس طرح  خود کش حملہ کرنے والے کو یقین ہوتا ہے کے اسکے مرنے سے کوئی بڑا فائدہ اس مقصد کو پہنچے گا جس کے لئے وہ جان دے رہا ہے. حضرت عمرؓ نے ایران اور ساسانی سلطنت کو اپنے دور حکومت میں تقریباً ختم کر دیا. جنگ قادسیہ میں انکی بادشاہت کو مٹا دیا گیا تھا. ایرانیوں کا خیال تھا کے جیسے  سکندر اعظم نے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو فتح کیا لیکن اسکی موت کے ساتھ ہی وہ سب کچھ ختم ہو گیا اور سکندر کی بنائی ہوئی سلطنت قائم نہیں رہی اسی طرح حضرت عمرؓ کی موت کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جائے گا اور یہ اسلام جو تیزی سے پھیل رہا ہے  وہ رک جائے گا بلکہ کیا معلوم اسلام پھر سے واپس عرب تک ہی محصور ہو جائے.

تو ابو لولوہ فیروز درحقیقت حضرت عمرؓ کے پاس شکایت کرنے نہیں آیا تھا بلکہ حضرت عمرؓ کو شہید ہی کرنے آیا تھا. اور وہ شکایت کے بہانے جگہ اور موقع محل دیکھ رہا تھا. جیسے کوئی بھی خود کش حملہ آور پہلے جگہ اور موقع سے آگاہی حاصل کرتا ہے. یہ سازش ایرانیوں کی ہی تھی لیکن اس سازش کے پورا ہو جانے کے بعد بھی ایرانی وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے جس کے لئے انھوں نے حضرت عمرؓ کو شہید کیا تھا اور حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی اسلام پھلتا پھولتا گیا. یہاں پر یہ بھی بتانا بیجا نہیں ہو گا کے ابو لولوہ فیروز کا مزار ابھی بھی ایران میں ہے اور اس کو وہ بابا شجاع الدین (یعنی بہادر شخص) کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور برسی بھی مناتے ہیں. نیچے اس مقبرے اور اس پر لکھے الفاظ کی تصاویر ہیں. 





اخر میں ایران کا اپنے ثقافتی تفاخر پر ایک شعر جو یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کے انکو اپنے ایرانی ہونے پر مسلمان ہونے سے زیادہ فخر ہے
ز شیر شتر خوردن و سوسمار
عرب را به جایی رسیده ست کار
که تخت عجم را کنند آرزو
تفو بر تو ای چرخ گردون تفو!

اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کے یہ جو اونٹوں کا دودھ پینے والے اور گو کھانے والوں کو جو ساسانی تخت کی آرزو ہو گئی ہے اس پر اے آسمان تو پھٹ کیوں نہیں گیا.

آیندہ کی اقساط میں ہم بحث کریں گے کے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ساتھ جو سازش اور فتنہ شروع ہوا وہ کیا تھا اور کیسے آج تک مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے. اور سب سے اہم چیز کے اس فتنے میں کیا کیا حربے اور جھوٹ پھیلاے گئے

No comments:

Post a Comment