Sunday, April 19, 2015

حضرت عثمان کی شہادت قرآن کی روشنی میں

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلام کی قدآور اور انتہائی اہم شخصیت ہیں. آپ کو اسلام کے تیسرے خلیفہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے اور نبی اکرم (ص) کے داماد بھی ہیں. آپ (رض) کی اسلام کے لئے خدمات بیش بہا ہیں.

آپ (رض) کی شہادت اسلام میں پہلے اور سب سے بارے فتنے کی بنیاد ہے اور فتنہ آج تک نا صرف قائم ہے بلکے زیادہ خطرناک ہے. آپ کی شہادت کے وقت اسلام میں تین گروہ بن گئے.

پہلا گروہ: جسکی قیادت حضرت عایشہ (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) کر رہے تھے کا مطالبہ تھا کے حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کو فلفور سزا دی جائے
دوسرا گروہ: کہ رہا تھا کے حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کیا جائے اور پھر حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے
تیسرا گروہ: ان لوگوں پر مشتمل تھا جو خاموش ہو گئے تھے اور اس فتنے کے گزر جانے کے انتظار میں تھے

حضرت عثمان (رض) نا صرف اولین ایمان لانے والوں میں سے تھے بلکہ وہ دولت مند تھے اور انکی دولت ہمیشہ اسلام اور نبی اکرم (ص) کی خدمت کے لئے پیش پیش رہی ہے. صلح حدیبیہ کے وقت جب قریش مکّہ نے نبی اکرم (ص) اور صحابہ کرام(رض) کو جو عمرہ کی نیت سے آئے ہوۓ تھے کو روک لیا تو نبی اکرم (ص) نے حضرت عثمان(رض) کو اپنا سفیر بنا کر مکّہ بھیجا کے قریش کے ساتھ بات چیت سے معاملے کو حل کر سکیں

حضرت عثمان (رض) کی غیر موجودگی میں حضرت عثمان (رض) کے شہید کر دیے جانے کی افواہ پھیل گئی. اس افواہ کے موقع پر نبی اکرم (ص) نے تمام صحابہ کرام سے بیت لی. جسکو اسلامی تاریخ میں بیت رضوان کہا جاتا ہے. کیونکہ اس بیت کی تائید اور نصرت قرآن میں بھی ائی.

آئیے دیکھتے ہیں کے قران میں اسکے بارے میں کیا آیا ہے. یہ سوره فتح (٤٨) ہے اور آیات نمبر ١٠.

10: إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
اور اس کا ترجمہ
10: جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا

قران کی آیات نا صرف بہت آسان واضح بلکہ غیر مبہم بھی ہے.
یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب صلح حدیبیہ ہونے کے بعد مسلمان نبی اکرم(ص) کے ساتھ واپس مکّہ جا رہے تھے. حضرت عثمان(رض) خیر و عافیت سے نبی اکرم(ص) اور مسلمانوں کے پاس آ گئے تھے. تو آیات کا پہلا حصّہ کے "جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔" بتا رہا ہے کے یہ بیت الله سے کی گئی ہے اور الله کی رضا اور خوشنودی اس میں شامل ہے. اسی لئے اس کو بیت رضوان کے نام دیا گیا ہے.

لیکن آیات کا دوسرا حصّہ " پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا" بہت ہی واضح ہونے کے باوجود نظر انداز کیا جاتا رہا. حضرت عثمان (رض) تو خیریت سے واپس آ گئے ہیں تو اب کس عہد کو توڑنے کی بات ہو رہی ہے؟ اور اس حصّے کو مستقبل کے پیراۓ میں لکھا گیا ہے کہ یہ الله سے کیا گیا عہد مستقبل میں ہے جس کی رو سے جو اس عہد کو توڑے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا.

اور پھر تاریخ نے دیکھا کے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا گیا اور اس موقع پر اسلام میں تین گروہ بن گئے اور ان میں سے ایک گروہ نے جس میں حضرت عایشہ (رض) اور حضرت امیر معاویہ (رض) شامل تھے نے حضرت عثمان(رض) کے قاتلوں سے فوراً بدلہ لینے کا مطالبہ کیا انہی لوگوں  کے لئے الله نے اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے اس آیت میں. 
 
اخر کس دلیل میں ہم حضرت عائشہ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت معاویہ کے اس بنیادی مطالبے کو غلط اور مبنی بر بغاوت قرار دیتے
ہیں. حالانکہ قرآن کی سوره بقرہ کی آیت ١٧٩ کہتی ہے

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 
اور اے عقلمندو تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو

ازرویے قرآن ایک مطالبے کو طبری، مسعودی، یعقوبی جیسی مجوسیوں کی تاریخ پر کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے جب کہ ان کے مقابلہ میں نہ صرف صحابہ کرام ہیں بلکہ ام المومنین کا طرز عمل بھی سامنے ہے. سچ یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) ہی ہیں جن کے قتل کے قصاص کی بیعت خود الله نے اور نبی نے حدیبیہ کے مقام پر لی تھی. اور قصاص نہ لے کر ١٤٠٠ سال سے ہم قرآن کی دوسری بات کو بھی سچا ہوتا بار بار دیکھ رہے ہیں. اس وقت قصاص لے لیا گیا ہوتا تو ہم اس خونریزی سے بچ جاتے جو قصاص نہ لینے کی وجہ سے اسی دن سے شروع ہو گئی تھی. اور جس کی تنبیہ قرآن نے ہمیں پہلے ہی کر دی تھی 

اس آیت کو بار بار پڑھنے کے بعد میرے ذھن میں تو کوئی شک نہیں رہا کے حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کو فالفور سزا دینا الله سے کیا گیا وعدہ ہے.