Tuesday, December 29, 2015

افضل کی موجودگی میں غیر افضل کی حکمرانی


پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن سے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں. اور الله کا خاص کرم بھی ہے کے بہت سے سوالات کے جوابات مل بھی گئے ہیں. کچھ عرصہ پچھلے قرآن میں سوره بقرہ پڑھتے ہوۓ ٢٤٦ آیت گزری. آیت ہے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُواْ لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ...
ترجمہ: کیاتم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو موسیٰ کے بعد نہیں دیکھا جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم الله کی راہ میں لڑیں...

اس آیت میں دو تین باتیں بڑی غور طلب ہیں. پہلی بات تو یہ کے بنی اسرائیل نے ایک نبی سے کہا کے ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو. تو پہلا سوال کے ایک نبی کے ہوتے ہوۓ بادشاہ کا کیا کام؟ دوسری بات یہ ہے کے یہ بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست بنی اسرائیل نے دی نہ کہ الله نے حکم دیا. اور تیسری بات جو کہ سب سے اہم ہے کے نبی کو ایک امتی پر فضیلت کو سب ہی مانتے ہیں لیکن جب بنی اسرائیل نے ایک بادشاہ مانگا تو نبی بادشاہ نہیں بنا بلکہ ایک امتی بادشاہ بنا جس کا ذکر اگلی آیت ٢٤٧ میں آیا ہے

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک الله نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے انہوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہو سکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی پیغمبر نے کہا بے شک الله نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخ دی ہے اور الله اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے

تو الله تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرتے ہوۓ طالوت کو بادشاہ بنا دیا.. اس آیت میں بنی اسرائیل کا اعتراض بھی آیا ہے اور اسکا جواب بھی. بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کے اس کے پاس مال و دولت نہیں تو الله نے جواب دیا کے اس کے پاس علم ہے اور جسم میں فراخی ہے.

یہاں پر اگر صرف دینی علم کی ضرورت ہوتی تو الله کے نبی سے زیادہ کس کے پاس دینی علم ہوتا ہے؟ تو الله پھر اپنے نبی کو ہی حکمران بنا دیتا.. تو دینی علم کی ضرورت تو ہوتی ہے لیکن ساتھ میں دنیاوی علم کی اہمیت بھی ادھر ظاہر ہوتی ہے.

دوسری چیز یہ ہے کہ جسم کی فراخی سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کے وہ کوئی باڈی بلڈر تھے. بلکہ جسم کی فراخی سے مراد ایک چست و توانا جسم. اس سے ایک چیز جو اور واضح ہوتی ہے کے ایک توانا اور تندرست انسان ہی زیادہ علمی سمجھ بوجھ رکھنے کے قابل ہے.

تو ان دو آیتوں سے دو باتیں تو واضح ہو گئیں کے سمجھدار اور تندرست و توانا انسان کو ہی حکمران بنانا چاہیے. اس سے کچھ آیتوں بعد الله نے آیت ٢٥١ میں فرمایا

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاء وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَـكِنَّ اللّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
ترجمہ: پھر الله کے حکم سے مومنو ں نے جالوت کے لشکروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو مار ڈالا اور الله نے سلطنت اور حکمت داؤد کو دی اور جو چاہا اسے سکھایا اور اگر الله کابعض کو بعض کے ذریعے سے دفع کرا دینا نہ ہوتا تو زمین فساد سے پُر ہو جاتی لیکن الله جہان والوں پر بہت مہربان ہے

اس آیت میں الله نے بتایا کے طالوت کے بعد داؤد کو حکومت دی. اس آیت میں داؤد کی بہادری اور جسمانی طاقت کا بھی بتا دیا کے انھوں نے جالوت کو قتل کیا. ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کے اور داؤد کو سکھایا یعنی بہت سا علم بھی دیا. تو حکمران کی جی دو شرائط آیت ٢٤٧ میں بتائی تھیں علم اور جسمانی صحت وہ حضرت داؤد میں بھی پوری طرح موجود تھیں.

سوره نمل میں کی آیت ١٦ میں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
ترجمہ: اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اورہمیں ہر قسم کے سازو سامان دیے گئے ہیں بے شک یہ صریح فضیلت ہے

اب یھاں پر ایک اہم نقطہ ملتا ہے. حضرت سلیمان حضرت داؤد کے بیٹے ہیں اور حضرت داؤد کے بعد حکمرانی  حضرت سلیمان کے پاس گئی ہے. جس سے معلوم ہوا کے اگر بیٹا اس قابل ہے اور قرآن نے جو شرائط رکھی ہیں اس پر پورا اترتا ہے تو حکمرانی باپ سے بیٹے میں منتقل ہو سکتی ہے. یھاں پر یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کے طالوت کی حکمرانی کے دور میں ایک نبی موجود تھے اور حکمرانی پھر بھی الله نے طالوت کو عطا کی نہ کے نبی کو. تو نبی ہونا بھی حکمرانی کے لئے کافی نہیں اور اگر حضرت سلیمان کے دور میں کوئی ان کا امتی حضرت سلیمان سے زیادہ حقدار ہوتا تو حکمرانی الله اس کو عطا کرتا جیسا کہ الله نے طالوت کو حکمرانی عطا کر کے دکھایا تھا. اس سے ثابت ہوتا ہے کے الله نے حضرت سلیمان کو حکمرانی ان کی نبوت کی وجہ سے نہیں بلکہ انکا حکمرانی کے قابل ہونے کی وجہ سے عطا کی.

ان آیتوں میں الله نے ہمیں کوئی بنی اسرائیل کی تاریخ نہیں بتانی تھے بلکہ ہماری لئے ہدایت اور رہنمائی اور اصول بتائے ہیں. ویسے تو ہم زبان سے کہتے ہیں کے قرآن کی ایک ایک آیت میں علم کا سمندر ہے پر اس علم کے سمندر میں سے کچھ حاصل کرنے کے لئے ہم تیار نہیں. میری الله سے دعا ہے کے الله مجھ سمیت ہمیں ان آیات کو سمجھنے اور ان میں چھپے بیش بہا ہدایت رہنمائی کے نگینوں سے استفادہ کرنے کی توفیق دے. امین

Tuesday, December 15, 2015

حضرت عائشہؓ کی عمرنکاح، قرآن کی رو سے

حضرت عائشہ کی ٦ سال کی عمر میں نکاح اور ٩ سال کی عمر میں شادی ایک ایسی چیز ہے جس پر غیر مسلموں نے ہمیشہ اعتراض کیا ہے. اگرچہ بہت سے دلائل اور واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے یہ ٦ سال کی عمر میں نکاح کی روایت صحیح نہیں ہے لیکن ابھی بھی مسلمانوں کی ایک اکثریت اس پر یقین رکھتی ہے اور اس کے جواز کے حق میں ایک مسلمان کی حیثیت سے دلیلیں اور تاویلیں بھی دی جاتی ہیں.

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک غیر مسلم جو کہ اسلام کے بارے میں پڑھ کر اور سمجھ کر مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کے لئے یہ تاویلیں بے معنی ہیں. اور اس کے اندر نبی کے لئے کوئی احترام اور عقیدت کا جذبہ بھی نہیں ہیں. بلکہ وہ نبی کی شخصیت کو پرکھ رہا ہے اورایک مسلمہ معاشرتی معیار پرجانچ رہا ہے اور وہ ان تاویلوں سے قائل نہیں ہونے لگا.

میں خود تو بہت عرصہ سے اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تھا کیونکہ اور بہت ساری روایات کی وجہ سے یہ بات جچتی نہیں تھی کے حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت ٦ سال ہو سکتی ہیں کیونکہ بدر اور احد کی جنگ میں شریک ہوئیں. اور اس وقت آپ کی عمر اس معروف روایت کے مطابق آپ کی عمر  ٩، ١٠ سال بنتی ہے. واضح رہے کے ان جنگوں میں نبی اکرم نے ١٤، ١٤ سال کے لڑکوں کو بھی شریک نہیں کیا تھا. حضرت عائشہ ان جنگوں میں نرسنگ کے لئے شامل ہوئی تھیں. تو ایک ٩، ١٠ سال کی عمر کی لڑکی کے لئے  زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جہاں پر خون اور کٹے ہوۓ اعضاء کے ساتھ بھی مجاہدین ا سکتے ہیں. لیکن میری خواہش تھی کہ قرآن سے کوئی دلیل ملے جس سے ثابت ہو کہ اس روایت کو بیان کرنے میں کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے. کیونکہ قرآن نے خود کہا کہ

مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ.(الانعام، ٦ : ٣٨)
ترجمہ: ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی

تو الحمد الله کچھ دن پہلے سوره نسا کا ترجمہ پڑھتے ہوۓ آیت ٦ پڑھی
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ

ترجمہ: اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو

آیت یتیموں کے مال کے بارے میں ہیں لیکن اس میں ایک اہم بات جو الله نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تک کے وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جایئں.
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کے نکاح کی ایک کم از کم عمر ہے اور اس سے پہلے نکاح نہیں ہو سکتا. اس آیت میں ساتھ میں الله نے یہ بھی کہا کہ ان میں ہوشیاری بھی دیکھو. اس سے یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے کہ جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا بھی واضح ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ اکثریت میں ذہنی پختگی بھی جسمانی صحت کے ساتھ ہی آ جائے گی.

اب یتیموں کی پرورش اور ان کے مال کی دیکھ بھال پاکستانی قانون میں میرے علم کے مطابق ١٨ سال تک ہے اور دیگر مسلم ممالک میں یہ عمر مختلف ہو سکتی ہیں لیکن میرا نہیں خیال کے کسی مسلم ملک میں یتیموں کی دیکھ بھال صرف ٦ سال تک ہے.

سوره بنی اسرئیل کی آیات ٣٤ میں پھر الله نے نکاح کی کم از کم عمر کیا ہے اس کا بھی تعین کر دیا. آیت ہے
وَلَا تَقۡرَبُواْ مَالَ ٱلۡيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحۡسَنُ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ أَشُدَّهُ ۥ‌ۚ وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِ‌ۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولاً۬ (٣٤)
اور تم یتیم کے مال کے قریب مت جاؤ مگر ساتھ اس طریقے کے کہ وہ بہت ہی اچھا ہو یہاں تک کہ یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے' اور تم عہد کو پورا کرو، بلاشبہ عہد (اس کی بابت) بازپرس ہو گی.

اور جوانی کی عمر کسی بھی زمانے اور معاشرے میں ٦ سال سے نہیں شروع ہوتی. جیسا کے ہمیں معلوم ہے کے الله کے نبی مجسم قرآن تھے اور آپ کو الله نے جہاں عام مسلمانوں سے علیحدہ اختیارات دیے وہاں ان اختیارات کو قرآن میں بیان کیا جیسے زاید بیویوں کی اجازت یا طلاق نہ دینے  کا حکم لیکن الله نے نکاح صغیرہ کی کوئی چھوٹ نبی کو قرآن میں نہیں دی.

اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کے ٦ سال کی عمر میں حضرت عائشہ کا نکاح والی روایت میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے کیونکہ قرآن اس کم سنی کے نکاح کی اجازت نہیں دیتا اور میرا یقین ہے کہ نبی نے قرآن اور شریعت سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھایا