Tuesday, December 15, 2015

حضرت عائشہؓ کی عمرنکاح، قرآن کی رو سے

حضرت عائشہ کی ٦ سال کی عمر میں نکاح اور ٩ سال کی عمر میں شادی ایک ایسی چیز ہے جس پر غیر مسلموں نے ہمیشہ اعتراض کیا ہے. اگرچہ بہت سے دلائل اور واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے یہ ٦ سال کی عمر میں نکاح کی روایت صحیح نہیں ہے لیکن ابھی بھی مسلمانوں کی ایک اکثریت اس پر یقین رکھتی ہے اور اس کے جواز کے حق میں ایک مسلمان کی حیثیت سے دلیلیں اور تاویلیں بھی دی جاتی ہیں.

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک غیر مسلم جو کہ اسلام کے بارے میں پڑھ کر اور سمجھ کر مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کے لئے یہ تاویلیں بے معنی ہیں. اور اس کے اندر نبی کے لئے کوئی احترام اور عقیدت کا جذبہ بھی نہیں ہیں. بلکہ وہ نبی کی شخصیت کو پرکھ رہا ہے اورایک مسلمہ معاشرتی معیار پرجانچ رہا ہے اور وہ ان تاویلوں سے قائل نہیں ہونے لگا.

میں خود تو بہت عرصہ سے اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا تھا کیونکہ اور بہت ساری روایات کی وجہ سے یہ بات جچتی نہیں تھی کے حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت ٦ سال ہو سکتی ہیں کیونکہ بدر اور احد کی جنگ میں شریک ہوئیں. اور اس وقت آپ کی عمر اس معروف روایت کے مطابق آپ کی عمر  ٩، ١٠ سال بنتی ہے. واضح رہے کے ان جنگوں میں نبی اکرم نے ١٤، ١٤ سال کے لڑکوں کو بھی شریک نہیں کیا تھا. حضرت عائشہ ان جنگوں میں نرسنگ کے لئے شامل ہوئی تھیں. تو ایک ٩، ١٠ سال کی عمر کی لڑکی کے لئے  زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جہاں پر خون اور کٹے ہوۓ اعضاء کے ساتھ بھی مجاہدین ا سکتے ہیں. لیکن میری خواہش تھی کہ قرآن سے کوئی دلیل ملے جس سے ثابت ہو کہ اس روایت کو بیان کرنے میں کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے. کیونکہ قرآن نے خود کہا کہ

مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ.(الانعام، ٦ : ٣٨)
ترجمہ: ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی

تو الحمد الله کچھ دن پہلے سوره نسا کا ترجمہ پڑھتے ہوۓ آیت ٦ پڑھی
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ

ترجمہ: اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو

آیت یتیموں کے مال کے بارے میں ہیں لیکن اس میں ایک اہم بات جو الله نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تک کے وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جایئں.
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کے نکاح کی ایک کم از کم عمر ہے اور اس سے پہلے نکاح نہیں ہو سکتا. اس آیت میں ساتھ میں الله نے یہ بھی کہا کہ ان میں ہوشیاری بھی دیکھو. اس سے یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے کہ جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا بھی واضح ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہ اکثریت میں ذہنی پختگی بھی جسمانی صحت کے ساتھ ہی آ جائے گی.

اب یتیموں کی پرورش اور ان کے مال کی دیکھ بھال پاکستانی قانون میں میرے علم کے مطابق ١٨ سال تک ہے اور دیگر مسلم ممالک میں یہ عمر مختلف ہو سکتی ہیں لیکن میرا نہیں خیال کے کسی مسلم ملک میں یتیموں کی دیکھ بھال صرف ٦ سال تک ہے.

سوره بنی اسرئیل کی آیات ٣٤ میں پھر الله نے نکاح کی کم از کم عمر کیا ہے اس کا بھی تعین کر دیا. آیت ہے
وَلَا تَقۡرَبُواْ مَالَ ٱلۡيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحۡسَنُ حَتَّىٰ يَبۡلُغَ أَشُدَّهُ ۥ‌ۚ وَأَوۡفُواْ بِٱلۡعَهۡدِ‌ۖ إِنَّ ٱلۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡـُٔولاً۬ (٣٤)
اور تم یتیم کے مال کے قریب مت جاؤ مگر ساتھ اس طریقے کے کہ وہ بہت ہی اچھا ہو یہاں تک کہ یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے' اور تم عہد کو پورا کرو، بلاشبہ عہد (اس کی بابت) بازپرس ہو گی.

اور جوانی کی عمر کسی بھی زمانے اور معاشرے میں ٦ سال سے نہیں شروع ہوتی. جیسا کے ہمیں معلوم ہے کے الله کے نبی مجسم قرآن تھے اور آپ کو الله نے جہاں عام مسلمانوں سے علیحدہ اختیارات دیے وہاں ان اختیارات کو قرآن میں بیان کیا جیسے زاید بیویوں کی اجازت یا طلاق نہ دینے  کا حکم لیکن الله نے نکاح صغیرہ کی کوئی چھوٹ نبی کو قرآن میں نہیں دی.

اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کے ٦ سال کی عمر میں حضرت عائشہ کا نکاح والی روایت میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے کیونکہ قرآن اس کم سنی کے نکاح کی اجازت نہیں دیتا اور میرا یقین ہے کہ نبی نے قرآن اور شریعت سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھایا

6 comments:

  1. بہت ہی پیاری سائیٹ ہے اور بہت ہی پیاری باتیں شئیر کی ہے اللہ جزائے خیر دے ۔ اور ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق دے ۔ پلیز مزید بھی باتیں بتائیں ۔

    ReplyDelete