Tuesday, December 20, 2016

قران میں پاںچ نمازوں کا حکم اور صلاۃ الوسطی کونسی

قرآن میں سوره بنی اسرائیل میں نماز کی فرضیت کا حکم آیا ہے. اور عام خیال ہے کے قرآن میں صرف تین نمازوں کا ذکر ہے. لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جس آیت میں نماز کی فرضیت کا ذکر ہے اسی میں پانچوں نمازوں کا بھی ذکر ہے. ذیل میں وہ آیت دی گئی ہے جس میں نماز کی فرضیت کا حکم ہے 

أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا  
ترجمہ: آفتاب کے ڈھلنےسے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھا کرو اور صبح کی نماز بھی بے شک صبح کی نماز میں مجمع ہو تا ہے

پرانے زمانے میں ایک مکمل دن کو آٹھ پہر میں بانٹا جاتا تھا. جس میں سے چار پہر سورج کے چڑھنے کے ہیں اور چار پہر سورج کے غروب ہونے کے ہیں. جیسا کے ہمیں معلوم ہے کے انسانی تاریخ کے آغاز پر انسان نے سورج، چاند ستاروں کے ذریعے ہی راستے، دن، مہینے اور وقت کا حساب رکھنا شروع کیا تھا. اسی لئے الله نے بھی مہینہ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے کے ساتھ منسلک کیا کیونکہ یہ چیز ہر انسان کی دسترس اور سمجھ میں آ جانے والی ہے. 

تو اس آیت کے پہلے حصہ میں  نماز کو قائم کرنے کے لئے سورج کے زوال سے لے کر رات تک کا ذکر کیا گیا ہے. جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کے دن کے چار پہر سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ہیں. تو اس حساب سے یہاں چار نمازوں کا ذکر ہے.

پہلی نماز ظہر ہوئی جس میں سورج ڈھلنا شروع ہوا. لیکن اس کی حدت بھی پوری ہے اورروشنی بھی پوری ہے اور وہ دکھائی بھی پورا دے رہا ہے. 

دوسری نماز عصر ہوئی. اس میں سورج کی حدت ختم ہو گئی، لیکن روشنی ہے اور دکھائی بھی پورا دے رہا ہے. 

تیسری نماز مغرب ہوئی جب سورج کی تپش بھی ختم ہو گئی اور وہ دکھائی بھی نہیں دے رہا پر روشنی ہے ابھی باقی تھوڑی. 

اور آخری نماز عشاء کی بنی جب سورج کی روشنی، تپش اور دکھائی دینا سب ختم ہو گیا. 

اور دوسرے حصہ میں صبح یعنی فجر کی نماز کا ذکر ہے. اور کیونکہ فجر کی نماز پہلے سے ہی جاری تھی تو اس لئے الله نے مَشْهُودًا کا لفظ استعمال کیا ہے.  جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کے جس کا تم پہلے سے ہی مشاہدہ کر چکے ہو.

اس آیت کو اگر نماز وسطیٰ کی آیت کے ساتھ ملا لیں تو نماز وسطیٰ کونسی بنتی ہے وہ بھی معلوم ہو جائے گا. نماز وسطیٰ کا ذکر سوره بقرہ کی آیت ٢٣٨ میں  آیا ہے 
حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُواْ لِلّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو

تو نماز کی فرضیت کا ذکر اس ترتیب سے آیا ہے 
ظہر عصر مغرب عشاء فجر


اسی طرح دوسری جگہ جب سورت ھود میں قران میں نمازوں کا ذکر ایا ہے وہاں بھی نمازوں کی ترتیب فجر مغرب عشاء ائی ہے.
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ‌ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ‌ؕ ذٰ لِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ ‌ۚ‏ ﴿۱۱۴﴾
 اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ﴿۱۱۴﴾

 تو اس جگہ پر بھی الصَّلاَةِ الْوُسْطَى مغرب ھی بنتی ہے. یہ یاد رہے کہ یہ سورت بنی
اسرائیل سے پہلے ائى ہے

تو اس حساب سے میرے نزدیک نماز وسطیٰ مغرب ہی بنتی ہے

واللہ اعلم

Saturday, April 2, 2016

کیا قرآن میں گالی ہے؟


قرآن میں سوره الاعراف میں اتا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو جب تختیاں دیں تو ساتھ میں حکم دیا کہ اچھے مفہوم کی پیروی کریں
"اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: "اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا" (آیت ١٤٥)


پچھلے دنوں جو دھرنا ڈی چوک پر دیا گیا اس میں کچھ علماء کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں بہت ہی نازیبا الفاظ استعمال کے گئے تھے. ان علماء کے پیروکار ان کی تاویل اس طرح دیتے ہیں کہ قرآن میں بھی گستاخان رسول کو گالیاں دی گئی ہیں. اس لئے غلط لوگوں کو گالی دینا ان کو ان کی اوقات یاد کرانا عین اسلامی ہے. اب قرآن کی جس آیت سے یہ لوگ استدلال لیتے ہیں وہ سوره قلم کی آیت ١٣ ہے. جس میں آیا ہے کہ

عُتُلٍّ ۢ بَعۡدَ ذٰلِكَ زَنِيۡمٍۙ‏ ﴿۱۳﴾

ترجمہ: بڑا اجڈ اس کے بعد "زنیم"  بھی ہے

بیشتر تراجم نے زنیم کو بد اصل لکھا ہے جب کہ بعض نے اس کو بدذات، اصل میں خطا، بد نسب، بد اصل، حرامی، بے نسب اور دیگر الفاظ استعمال کیے ہیں. 

لیکن عربی میں جو لفظ آیا ہے وہ زنیم ہے . اور اس کی بنیاد زنم پر ہے جس کا مطلب  اونٹ کے کان کے ساتھ کٹے ہوۓ گوشت کا ایک لوتھڑا.جیسے اس کٹے ہوے کان کے ٹکڑا کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح زنیم کا مطلب ہے ایک ایسے شخص کے ہیں جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں گویا زنیم کا مطلب  بے فیض ہے، یعنی ایک ایسا شخص جس سے کسی کو کوئی فائدہ ہی نہ پہنچے. عربی زبان کا اصول ہے کہ ہر لفظ اپنی بنیاد سے ملتا جلتا ہوتا ہے. تو ایک لفظ جس کی بنیاد بے فائدہ، فضول ہو اس کا مطلب بد نسب، بد اصل اور حرامی ہونا ممکن نہیں ہے.


ویسے بھی اس آیت سے اگلی پچھلی آیتوں کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد اصل یا حرامی جیسے مطلب آیتوں کے ربط کے خلاف جا رہے ہیں. آیت ١٠ سے ١٤ کا ترجمہ یہ ہے

اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان ﴿۱۰﴾  جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے ﴿۱۱﴾  نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھاہوا گناہگار ہے ﴿۱۲﴾   اور اَن سب عیوب کے ساتھ بے فیض ہے ﴿۱۳﴾  اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے ﴿١٤﴾

ان آیتوں میں ایک ایسے انسان کی بات ہو رہی ہے جو سراسر برائیوں میں گھرا ہوا ہے. تو آیت میں اس کو وہ باتیں گنوائی جا رہی ہے جو وہ خود کرتا ہے. اور کسی انسان کا بدذات ہونا اس کی اپنی غلطی نہیں ہے. اگر کوئی بد اصل ہے تو وہ خود سے بد اصل نہیں ہوا. اور اس سے اگلی آیت (١٤) یہ بات واضح کر رہی ہے کہ ان تمام برائیوں کی بنیاد اس شخص کے مال اور اولاد میں کثرت کی وجہ سے غرور میں مبتلا ہونا تھا.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تراجم میں اس قسم کی خرابی کیونکر آ گئیں؟ تو یہ بات تو جان لینی چاہیے جو قرآن نے بتائی کہ شیطان کی زندگی کا مقصد ہی راہ راست سے ہٹانا ہے. اور راہ راست سے ہٹانے کے لئے شیطان نے الله کے پیغام کو اور اس کےسابقہ  صحیفوں میں تحریف کروائی لیکن قرآن کی کیونکہ الله نے حفاظت کا اعلان کر دیا ہے تو قرآن کی الفاظ میں تو تحریف نہیں ہو سکی لیکن اس کے معنی اور مطالب میں تحریف کے لئے دوسری صدی ہجری کے عراق میں جھوٹی روایات وضع  کی گئیں. انہی روایات کے زیر اثر ہمارے بعض تراجم میں بھی نادانستہ طور پرغلطیاں ہوگئیں.
الله ہم سب کو توفیق دے کہ قرآن کو سمجھیں اور اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیں. اخر میں قرآن کی یاد دیہانی کے ساتھ اس کو ختم کرتے ہیں
وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ (سوره قمر، آیات ١٧)
اور البتہ ہم نے سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے پھر ہے کوئی سمجھنے والا