Thursday, October 22, 2015

واقعہ کربلا اور ایک مختصر تحقیقی مقالہ

واقعہ کربلا بیشک مسلم دنیا کا ایک سب سے اندوہناک واقعہ گردانہ جا سکتا ہے. ہر سال اس کو منا کر ہم اس بات کی تجدید کرتے ہیں کے کیسے ایک ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہ کر حضرت امام حسین نے ہمیشہ کے لئے اپنا نام روشن کر لیا. اس واقعہ کی حقیقت ہمیشہ سے میرے ذہن میں کسی شک و شبہ سے بالا تھیں. ان کو مارنے والوں کو ہمیشہ میں نے برا ہی سمجھا. اور ان کو اچھا سمجھ بھی کون سکتا ہے.

٢٠٠٣ میں کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تقریر کرتے ہوۓ عراق پر الزام لگایا کے عراقی حکومت وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کو چھپائے ہوۓ ہے اور عراق کو ان وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اس پر حملہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے. اس تقریر کی بنا پر جو کے دنیا کے ایک بہت معتبر ادارے میں ایک بہت ہی ذمہ دار امریکی حکومتی رکن نے کی تھی کی بنا پر عراق پر حملہ کیا گیا. اور پھر ٢٠٠٩ میں امریکا نے اعلان کیا کے عراق میں کوئی وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار نہیں ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا سراغ لگانے کی مہم کو بھی ختم کر رہا ہے. ایک پورا ملک تباہ کر دیا گیا ایک جھوٹے پروپیگنڈا پر.

کچھ عرصہ بعد ایک بحث میں مجھے معلوم ہوا کے امام ابو حنیفہ نے واقعہ کربلا پر کچھ ارشاد نہیں فرمایا. جو کے میرے لئے بہت حیرت کی بات تھی کے اتنے بڑے واقعہ پر کیا کسی نے کچھ پوچھا نہیں یا کوئی سیاسی مصلحت کے تحت اس پر بولنے سے اجتناب کیا گیا کیونکہ اس واقعہ میں بہت سے فقہی پہلو بھی ہیں مثلا نماز خوف یا جابر حکمران کے خلاف کب جہاد فرض ہو جاتا ہے اور بہت سے چھوٹے بڑے مسائل ہیں. لیکن اس کا جواب ملا نہیں.

اسی طرح مقدمہ ابن خلدون میں ٣ صفحات غائب ہیں جو واقعہ کربلا سے مطلق ہیں. تاریخ ابن خلدون میں تو جو اسلامی تاریخ کے واقعات ہیں ان کی جو جو تفصیل ائی ہیں وہ بیان کر دی گئی ہیں لیکن مقدمہ ابن خلدون میں ابن خلدون نے ان واقعات پر بحث کی ہے اور اپنی ایک رائے دی ہے.

پھر الله کا کرنا ہوا کے واقعہ کربلا پر سب سے پرانی تحریر ابو مخنف (لوط بن یحییٰ) کی جو کہ شیعہ مصنف کی ہی تھی کو پڑھنے کا موقع ملا. اسکا انگریزی ترجمہ جو ایک ایرانی پبلشرز نے کیا جس کے پیش لفظ میں مترجم حامد موانی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کے اس کتاب میں کئی سقم موجود ہیں اور ترجمہ میں حاشیوں میں ان سقم کی نشاندہی کی گئی ہے جس پر مجھے حیرت ہوئی کے ایک پرانی کتاب جو کے زیادہ صحیح ہونی چاہیے اس میں تصیح کی ضرورت کیوں پیش ائی. پھر محمود عباسی صاحب کی کتاب مقتل حسین پڑھی تو معلوم ہوا کے ابو مخنف کی کتاب کے تو ہر صفحے پر تاریخی اور واقعاتی غلطیاں نہیں فاش غلطیاں ہیں. ابو مخنف کی کتاب  (170)١٧٠ ہجری کی ہے یعنی ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً ١١٠ سال بعد کی اور اس کتاب کو حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے. لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ طبری نے دی اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنا دیا. مزید یہ  کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ سے اتی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے.

ان تمام باتوں نے مجھے واقعہ کربلا پر مزید ڈھونڈنے پر مجبور کیا کہ معلوم کروں کہ اخر واقعہ کربلا کی حقیقت کیا ہے. اس پر میں حدیث کی ایک اولین کتابوں میں سے ایک کتاب موطا امام مالک کو کھنگالا لیکن اس میں بھی واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے. پھر میں نے سوچا کے سنی کے علاوہ شیعہ کی کتابوں میں دیکھنا چاہیے کے آیا ابو مخنف کی کتاب "مقتل حسین" سے پہلے بھی واقعہ کربلا پر کوئی روایت موجود ہے واقعہ کربلا پر، تو مجھے مسند امام زید ابن علی جو کے حضرت امام حسین کے پوتے ہیں ان کی کتاب مل گئی اور اس میں بھی اس واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت یا کوئی فقہی بحث نہیں. جب کہ اس کتاب میں جنگ نهروان (جو کہ حضرت علی اور خوارج کے درمیان ہوئی) کا ذکر اور نماز خوف میں اس پر بحث کی گئی ہے. اور سب سے اہم کے حضرت زین العابدین جو
کہ ابو مخنف کے مطابق کربلا کے عینی شاہد میں سے ہیں ان سے منسوب متعدد کتب ہیں اور ان میں سے کسی بھی کتاب میں کربلا کے متعلق کوئی واقعہ یا قصہ درج نہیں.

٦٩ (69) ہجری میں اسلام کو کمزور کرنے کے لئے مختار سقفی نے توابون کے نام سے جو تحریک شروع کی وہ بھی حضرت حسین کی مبینہ شہادت کو لے کر شروع کی تاہم اس کہانی کو موصل کے قریب نینوا کے ارد گرد بنایا گیا اور حضرت امام حسین کو شہید نینوا کے طور پر مشہور کیا گیا. شہید نینوا کی کہانی کیونکہ صرف حضرت امام حسین کی ذاتی شہادت سے متعلق تھی اور اس میں عورتوں  اور بچوں کا ذکر نہیں تھا تو اس لئے وہ عوامی پذیرائی اور جذباتیت کا وہ سیلاب پیدا کرنے میں  ناکام رہی جس مقصد کے لئے اس کہانی کو گھڑا گیا تھا اسی لئے ابو مخنف نے جذباتیت اور فتنہ گری کے لئے کہانی میں عورتوں اور بچوں کے کردار بڑھائے اور کہانی کا مرکز نینوا سے کربلا (جس کا اصل نام کربغا تھا) منتقل کیا تاہم شہید نینوا سے وہ بھی جان نہیں چھڑا سکا اور نینوا کو کربلا
(کربغا) کا ہی دوسرا نام بتا دیا. جبکہ درحقیقت نینوا اور کربلا(کربغا) میں ٦٠٠ کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے. ابو مخنف کے افسانے کے مطابق حضرت حسین کے اس مبینہ سفر کا آغاز مکہ مکرّمہ سے کوفہ کی جانب ہوا تھا اور کربلا مکہ سے کوفہ کے راستے میں نہیں اتا بلکہ کوفہ سے دمشق کے راستے میں اتا ہے. اس کی تصدیق گوگل میپ سے کی جا سکتی ہے.

واقعہ کربلا ایک حقیقت ہے یا
اسلام کو منقسم کرنے کے لئے افسانہ گھڑا گیا؟ نبی اکرم متواتر کی حدیث ہے کے اسلام کو تنزلی نہیں ہو گی جب تک ١٢(12) خلفاء تم میں سے نہ گزر جائیں. اور اسلام کے پہلے ١٢(12) خلفاء میں یزید بھی شامل ہے. یہ بھی سب ہی مانتے ہیں کے حضرت امام حسین یزید کی کمان میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر میں شامل تھے. یہ بھی حقیقت ہے کے حضرت حسن اور حضرت حسین ہر سال دمشق میں حضرت امیر معاویہ کے دربار میں جایا کرتے تھے اور حضرت حسین اپنے بھائی کی وفات کے بعد بھی اس پر کاربند رہے، اگر حضرت معاویہ کسی بدکردار کو خلافت سونپنے کا سوچ رہے ہوتے تو کیا حضرت حسین ان کو متنبہ نہ کرتے یا کم از کم ان کے دربار میں جانے سے رک نہ جاتے؟ حضرت امام حسین نہ صرف دربار میں جاتے بلکہ حضرت امیر معاویہ ان کی عزت اور تکریم کرتے. اسلام کو تقسیم کرنے والوں نے پہلے ایک پروپیگنڈا کیا کہ خلافت پر حضرت علی کا حق سب سے پہلے تھا اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان نے ان سے یہ حق چھینا. اگرچہ مسلمانوں نے من حیث القوم اس پروپیگنڈا کو رد کر دیا مگر حضرت حسین کا خلافت پر حق کو تسلیم کر لیا جب کہ نہ انھوں نے یہ حق مانگا بلکہ حضرت امیر معاویہ کے ساتھ ایک دوستانہ تعلقات اور مراسم بھی رکھے. اور ایک روایت کے مطابق حضرت امیر معاویہ نے حضرت حسین کو عراق کی گورنری بھی عطا کی تھی. 

الله نے قرآن میں فرمایا کے مسلمانوں تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو اور تحقیق ہی وہ چیز ہے جو ہم نے اسلام میں کی بھی نہیں اور کرنے والے کو منع ہی نہیں برا بھلا بھی کہا. اور تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی. میری ابھی تک کی تحقیق تو یہ بتاتی ہے کے واقعہ کربلا  ١٧٠ ہجری میں گھڑا گیا اسی لئے ١٧٠ ہجری سے پرانی کتابوں چاہے وہ شیعہ لوگوں کے اپنے اماموں کی ہی کیوں نہ ہو اور حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک جیسے لوگ جو ١٧٠ ہجری سے پہلے گزر گئے انکی اس پر کوئی رائے نہیں ہے کیونکہ اس وقت تک واقعہ کربلا لکھا ہی نہیں گیا تھا اور جس نے لکھا ہے اس نے خود اتنی غلطیاں کی ہیں کے یہ سچا واقعہ ہو ہی نہیں سکتا.  آپ کی رائے کا انتظار رہے گا


حوالہ جات
مقتل امام حسین انگریزی ترجمہ
محمود عباسی مقتل امام حسین
مسند امام زید ابن علی

Wednesday, October 14, 2015

حضرت عمر کی شہادت: ایک واقعہ یا ایک سازش


شہادت عثمانؓ اسلام کا پہلا اصل، سب سے بڑا اور برا فتنہ ہے اور ہم اس فتنے کو سمجھ لیں تو ہم کو آج تک کے حالات اور فتنوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی.


حضرت عثمانؓ کی شہادت سے پہلے حضرت عمرؓ بھی شہید ہوۓ لیکن حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے. حضرت عثمانؓ  کی شہادت پر بحث اور اس کے پیچھے چھپے فتنے کو سمجھنے سے پہلے حضرت عمرؓ کی شہادت پر تھوڑی سی بات کر لی جائے. حضرت عمرؓ کے پاس ایک مجوسی غلام  ابو لولوہ فیروز آیا اور اپنے مالک کی شکایت کی کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہؓ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ ٢٦ ذی الحجہ ٢٣ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد ٦٣ سال کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔

سوچنے کی بات ہے کے غلام کے نزدیک زیادتی تو اسکا مالک کر رہا تھا اور یقیناً غصّہ بھی پہلے اس غلام کو اپنے مالک پر ہونا چاہیے تو اس نے حضرت عمرؓ کو کیوں قتل کیا. دوسری بات اسکو اگر حضرت عمرؓ کا فیصلہ پسند نہیں تھا تو حضرت عمرؓ کو قتل کر کے تو اسکو پتہ تھا یقینی موت ہے اور مسلمان اس کو نہیں چھوڑیں گے. تو یہ ایک خودکشی تھی اور اس کے مسئلہ کا حل بھی نہیں تھا.

خود کش حملے آج کل جب بھی کیے جاتے ہیں وہ کسی بڑا مقصد کرنے کے لئے  کیے جاتے ہیں یا کم از کم خود کش حملہ آور کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کے اس کی موت ایک بڑے مقصد کے لئے ہے. اس طرح  خود کش حملہ کرنے والے کو یقین ہوتا ہے کے اسکے مرنے سے کوئی بڑا فائدہ اس مقصد کو پہنچے گا جس کے لئے وہ جان دے رہا ہے. حضرت عمرؓ نے ایران اور ساسانی سلطنت کو اپنے دور حکومت میں تقریباً ختم کر دیا. جنگ قادسیہ میں انکی بادشاہت کو مٹا دیا گیا تھا. ایرانیوں کا خیال تھا کے جیسے  سکندر اعظم نے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو فتح کیا لیکن اسکی موت کے ساتھ ہی وہ سب کچھ ختم ہو گیا اور سکندر کی بنائی ہوئی سلطنت قائم نہیں رہی اسی طرح حضرت عمرؓ کی موت کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جائے گا اور یہ اسلام جو تیزی سے پھیل رہا ہے  وہ رک جائے گا بلکہ کیا معلوم اسلام پھر سے واپس عرب تک ہی محصور ہو جائے.

تو ابو لولوہ فیروز درحقیقت حضرت عمرؓ کے پاس شکایت کرنے نہیں آیا تھا بلکہ حضرت عمرؓ کو شہید ہی کرنے آیا تھا. اور وہ شکایت کے بہانے جگہ اور موقع محل دیکھ رہا تھا. جیسے کوئی بھی خود کش حملہ آور پہلے جگہ اور موقع سے آگاہی حاصل کرتا ہے. یہ سازش ایرانیوں کی ہی تھی لیکن اس سازش کے پورا ہو جانے کے بعد بھی ایرانی وہ مقصد حاصل نہیں کر سکے جس کے لئے انھوں نے حضرت عمرؓ کو شہید کیا تھا اور حضرت عثمانؓ کے دور میں بھی اسلام پھلتا پھولتا گیا. یہاں پر یہ بھی بتانا بیجا نہیں ہو گا کے ابو لولوہ فیروز کا مزار ابھی بھی ایران میں ہے اور اس کو وہ بابا شجاع الدین (یعنی بہادر شخص) کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور برسی بھی مناتے ہیں. نیچے اس مقبرے اور اس پر لکھے الفاظ کی تصاویر ہیں. 





اخر میں ایران کا اپنے ثقافتی تفاخر پر ایک شعر جو یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کے انکو اپنے ایرانی ہونے پر مسلمان ہونے سے زیادہ فخر ہے
ز شیر شتر خوردن و سوسمار
عرب را به جایی رسیده ست کار
که تخت عجم را کنند آرزو
تفو بر تو ای چرخ گردون تفو!

اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کے یہ جو اونٹوں کا دودھ پینے والے اور گو کھانے والوں کو جو ساسانی تخت کی آرزو ہو گئی ہے اس پر اے آسمان تو پھٹ کیوں نہیں گیا.

آیندہ کی اقساط میں ہم بحث کریں گے کے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے ساتھ جو سازش اور فتنہ شروع ہوا وہ کیا تھا اور کیسے آج تک مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے. اور سب سے اہم چیز کے اس فتنے میں کیا کیا حربے اور جھوٹ پھیلاے گئے