Thursday, November 12, 2015

حضرت عائشہؓ پر تہمت اور کچھ تاریخی حقائق


بخاری شریف کی روایت ٢٦٦١ جو جلد چار میں ائی ہے جو ایک بہت لمبی روایت ہے بلکہ قصّہ ہے جو ٦ - ٧ صفحات پر مشتمل ہے. یہ قصّہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے. روایت اتنی لمبی ہے کے اسکو شامل کیا تو بلاگ بہت بہت طویل ہو جائے گا اس لئے روایت کا لنک دیا جا رہا ہے جہاں پہلے روایت پڑھ لیں پھر اس پر کچھ دلائل پیش کیے جایئں گے










پہلی بات: ایک آدمی چاہے کتنا بھی ہلکا ہو لیکن ہودج میں بیٹھے گا تو اسکے وزن میں ایک نمایاں اضافہ ہو گا کیونکہ ہودج خود کچھ بہت بھاری نہیں ہوتا. دوسرے بات کے کیا اٹھانے والوں نے کچھ متنبہ بھی نہیں کیا کے ہم ہودج اٹھانے لگے ہیں تو مضبوطی سے بیٹھ جایئں؟ کیا وہ اتنے غیر ذمہ دار ہوتے تھے؟
دوسری بات: اسی روایت میں آگے چل کر یہ بیان کیا گیا ہے کے کچھ دنوں بعد حضرت عائشہؓ ام مسطح کے ساتھ حاجت کے لئے جا رہی تھیں اب سوال یہ ہے کے جنگل میں حضرت عائشہؓ اکیلے گئیں اور مدینہ میں آپ ایک عورت کے ساتھ جا رہی تھیں؟ کیا جنگل میں کسی ساتھ کے ساتھ جانا زیادہ ضروری نہیں؟
تیسری بات: جب حضرت عائشہؓ نے اپنی امی سے ان افواہوں کا ذکر کیا تو انھوں نے سوکنوں پر الزام ڈال لیا. جب کہ سوکنوں کا ان افواہوں میں کہیں ذکر نہیں اتا. کیا اس سے حضرت عائشہؓ کی والدہ کو بہت ہی عامیانہ سی عورت نہیں دیکھایا گیا

چوتھی بات: الله کے نبی نے مشورہ لینے کے لئے حضرت اسامہ کو بلایا جب کے اس وقت حضرت زید زندہ تھے اور الله کے نبی کا حضرت زید سے جو انس اور اعتماد تھا وہ کوئی انہونی بات بھی نہیں. اور حضرت اسامہ خود بمشکل ١٣ سال کے ہوں گے تو ایک ایسا اہم معاملہ جو نبی کی ذات سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے اس پر آپ کیا حضرت زید سے مشورہ کرنا زیادہ مناسب نہیں سمجھیں گے؟


پانچویں بات: اسی روایت میں آگے جا کر اتا ہے کے نبی نے بریرہ سے حضرت عائشہؓ کے بارے میں دریافت کیا؟ یاد رہے کے یہ روایت ٥ ہجری کی ہے اور اس دور تک مسلمانوں کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی اور بہت سے روایات میں اتا ہے کے مسلمانوں کے پاس کھانے کو کھجور اور دودھ ہی ہوتا تھا بس. مزید یہ کے اسی روایت کے شروع میں ہےکے مسلمانوں کی غذا معمولی تھی اور عورتوں کا وزن کم ہوتا تھا لیکن ایک عورت جو سوئی رہے اور روٹیاں کھائے اسکا وزن کم ہو نہیں سکتا.

چھٹی بات: دوسری روایات میں اتا ہے کے حضرت فاطمہؓ نے صلح حدیبیہ کے بعد نبی سے ایک خادمہ مانگی تو آپ نے کچھ کلمات سکھا دیے اور یہ روایت جو اس سے بہت پہلے کی ہے اس میں ہے کے حضرت عائشہؓ کی اپنی خاص خادمہ ہیں؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کے نبی اپنی بیٹی کو تو کوئی خادمہ نہ دیں پر بیوی کو دے دیں؟؟

ساتویں بات: حضرت بریرہ فتح مکّہ کے بعد خادمہ بنی ہیں

آٹھویں بات: اسی روایت میں حضرت سعد بن معاذ کو اوس کا سردار بتایا گیا ہے جب کے جس وقت کا واقعہ ہے اس وقت حضرت سعد سردار نہیں تھے بلکہ شہید ہو چکے تھے

اس حدیث میں اور بھی بہت سے سقم ہیں جس کی وجہ سے اس پر بہت سوالات اٹھتے ہیں. اگرچہ ہم اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی عظمت پر لے جاتے ہیں لیکن کیا اس حدیث سے یہ نہیں لگتا کے

١. نبی نے غیر ذمہ دار تھے اور اگلے دن دوپہر کو حضرت عائشہؓ قافلے سے مل گئیں لیکن نبی کو معلوم نہیں ہوا؟
٢. ایک اہم گھریلو اور ذاتی پر رائے کے لئے آپ ایک بچے سے مشورہ لے رہے ہیں جب کے ان کے والد بھی حیات ہیں
٣. حضرت ابو بکر کی بیوی نبی کی دوسروں بیویوں کے بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتی تھیں جب کے قرآن کہتا ہے کے وہ سب امہات المومنین ہیں
٤. مسلمانوں کے قبیلوں کے سردار اور مسلمان اپس میں جھگڑالو تھے
٥. اسی روایت میں ایک اور جگہ بیان کیا گیا ہے کے جب حضرت عائشہؓ کے بارے میں بریرہ نے گواہی دی کے میں نے ان کے اندر کوئی عیب نہیں دیکھا تو حضرت علی نے ان کو مارا کے سچ سچ بتاؤ. کیا الله کے نبی کے سامنے تشدد کر کے گواہیاں لی جاتی تھیں؟
٦. اس روایت میں یہ بھی بیان ہے کے حضرت عائشہؓ لاپرواہ تھیں اور بکریاں آٹا کھا جاتی تھیں اور وہ سوئی رہتی تھیں.
٧. حضرت عائشہؓ ایک جنگی مہم میں زیورات لے کر گئی ہوئی تھیں
٨. تیمم کی سہولت کی جو روایت ملتی ہے اس میں بھی حضرت عائشہؓ کا ہار گم جاتا ہے اور حضرت ابو بکر (رض) اس پر ناراض ہوتے ہیں کے اس کی وجہ سے ہماری نماز نکل گئی تو اس پر تیمم کا حکم آ جاتا ہے
٩. ایک پیدل شخص ایک قافلے کو آدھے دن کے اندر اندر پا لیتا ہے. کیا اتنی جلدی کوئی قافلے کو پہنچ سکتا تھا؟
١٠. اس روایت میں اس پروپگنڈے کو پھیلانے میں کسی زوجہ نبی کا ذکر نہیں لیکن حضرت عائشہؓ کی والدہ پھر بھی الزام کسی سوتن پر لگا رہی ہیں؟ کیا یہ بات اس روایت کو ہی غلط نہیں کہہ دیتا؟
١١. روایت میں جن لوگوں نے یہ تہمت لگائی، تاریخ میں ان کو کسی سزا کا ذکر نہیں ملتا، جب کہ قرآن تہمت لگانے والوں پر بھی کڑی سزا کا کہتا ہے؟ کیا یہ الله کی شریعت کے منافی نہیں؟
١٢. مزید یہ کہ حضرت علی نے اخر میں حضرت عائشہ کو طلاق دینا کا مشورہ دیا جب کہ اس سے پہلے ہی سوره احزاب میں نبی اکرم کو حکم آ گیا تھا کہ اب آپ کسی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے تو کیا زہری کے مطابق حضرت علی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا؟


الله نے قرآن میں فرمایا کے نبی کی زندگی اسوہ حسنہ ہے تمام لوگوں کے لئے کیا یہ واقعہ اس آیات کے خلاف نہیں جا رہا؟ حضرت عائشہؓ سے کسی نے نبی کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کے کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ نبی کی زندگی قران کا عملی نمونہ ہے. اور قرآن میں حضرت یوسف کے قصّے میں جب زلیخا نے حضرت یوسف پر الزام لگایا تو والی مصر نے حضرت یوسف سے بھی پوچھا جب کے پوری روایت میں نبی نے حضرت عائشہؓ سے نہیں پوچھا کے تم پر یہ الزام لگایا گیا ہے...

اسلام کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش حضرت ابو بکر کے دور سے ہی شروع ہو گئی تھیں اور حضرت عثمان کے دور میں کافی بڑھ گئی تھیں. یہ محاظ ایک نہیں بلکہ کئی جگہوں پر شروع کیا گیا تھا اور اس میں ایک حصہ اسلام کی تاریخ کو مسخ کر کے اس میں شامل کچھ شخصیات کے کردار کو مجروح کرنا بھی شامل تھا جن کا اسلام کے فقہ اور اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے میں اہم کردار رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نبی کی زندگی کو بھی داغدار بنا کر پیش کرنا تھا جیسا کے پہلے نبیوں کے ساتھ تورات اور انجیل میں کیا گیا. لیکن الله نے قرآن کو محفوظ رکھنے کا وعدہ کر کے ہمارے اپر ایک عظیم احسان کیا ہے جو ہر بات کو پرکھنے کے لئے ہمارے پاس ایک مستند، مکمل اور دائمی ذریعہ ہے.

اخر میں قرآن سے ہی آخری دلیل، جن آیات کے ساتھ اس واقعہ کو جوڑا جاتا ہے اس کی آخری آیت ہے
أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سوره النور، آیت ٢٦)
اس کا ترجمہ یہ بنتا ہے
وہ لوگ اس سے پاک ہیں جو یہ کہتے ہیں ا ن کے لیے بخشش اورعزت کی روزی ہے

قرآن میں  أُوْلَئِكَ کا لفظ آیا ہے بریت کے لئے اور  أُوْلَئِكَ تین یا اس سے زیادہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے. تو الله تین یا اس سے زیادہ لوگوں کی بریت کا اعلان کر رہا ہے قرآن میں جب کہ واقعہ میں صرف دو لوگوں کا ہی ذکر ہے. تیسرا کون تھا؟ تو یا تو قرآن غلط ہے یا پھر یہ واقعہ غلط ہے؟

میرا ایمان کہتا ہے کے قرآن تو ٹھیک ہے پر یہ واقعہ غلط ہے.

1 comment:

  1. کاش آپ بھنگے پن کے بجائے قرآن اور حدیث دونوں کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھتے تو یہ اعتراضات نہ ہوتے ۔صرف ایک عرض کرتا ہوں کہ "الذین جآوا باالافک عصبۃ " کیا کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ نہیں اگر آپ کو عربی انداز ِبیان معلوم ہوتا تو کبھی یہ اعتراض نہیں کرتے ۔اللہ آپ کو ہدایت دے (آمین)

    ReplyDelete