Saturday, April 2, 2016

کیا قرآن میں گالی ہے؟


قرآن میں سوره الاعراف میں اتا ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو جب تختیاں دیں تو ساتھ میں حکم دیا کہ اچھے مفہوم کی پیروی کریں
"اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: "اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا" (آیت ١٤٥)


پچھلے دنوں جو دھرنا ڈی چوک پر دیا گیا اس میں کچھ علماء کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں جن میں بہت ہی نازیبا الفاظ استعمال کے گئے تھے. ان علماء کے پیروکار ان کی تاویل اس طرح دیتے ہیں کہ قرآن میں بھی گستاخان رسول کو گالیاں دی گئی ہیں. اس لئے غلط لوگوں کو گالی دینا ان کو ان کی اوقات یاد کرانا عین اسلامی ہے. اب قرآن کی جس آیت سے یہ لوگ استدلال لیتے ہیں وہ سوره قلم کی آیت ١٣ ہے. جس میں آیا ہے کہ

عُتُلٍّ ۢ بَعۡدَ ذٰلِكَ زَنِيۡمٍۙ‏ ﴿۱۳﴾

ترجمہ: بڑا اجڈ اس کے بعد "زنیم"  بھی ہے

بیشتر تراجم نے زنیم کو بد اصل لکھا ہے جب کہ بعض نے اس کو بدذات، اصل میں خطا، بد نسب، بد اصل، حرامی، بے نسب اور دیگر الفاظ استعمال کیے ہیں. 

لیکن عربی میں جو لفظ آیا ہے وہ زنیم ہے . اور اس کی بنیاد زنم پر ہے جس کا مطلب  اونٹ کے کان کے ساتھ کٹے ہوۓ گوشت کا ایک لوتھڑا.جیسے اس کٹے ہوے کان کے ٹکڑا کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح زنیم کا مطلب ہے ایک ایسے شخص کے ہیں جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں گویا زنیم کا مطلب  بے فیض ہے، یعنی ایک ایسا شخص جس سے کسی کو کوئی فائدہ ہی نہ پہنچے. عربی زبان کا اصول ہے کہ ہر لفظ اپنی بنیاد سے ملتا جلتا ہوتا ہے. تو ایک لفظ جس کی بنیاد بے فائدہ، فضول ہو اس کا مطلب بد نسب، بد اصل اور حرامی ہونا ممکن نہیں ہے.


ویسے بھی اس آیت سے اگلی پچھلی آیتوں کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بد اصل یا حرامی جیسے مطلب آیتوں کے ربط کے خلاف جا رہے ہیں. آیت ١٠ سے ١٤ کا ترجمہ یہ ہے

اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان ﴿۱۰﴾  جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے ﴿۱۱﴾  نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھاہوا گناہگار ہے ﴿۱۲﴾   اور اَن سب عیوب کے ساتھ بے فیض ہے ﴿۱۳﴾  اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے ﴿١٤﴾

ان آیتوں میں ایک ایسے انسان کی بات ہو رہی ہے جو سراسر برائیوں میں گھرا ہوا ہے. تو آیت میں اس کو وہ باتیں گنوائی جا رہی ہے جو وہ خود کرتا ہے. اور کسی انسان کا بدذات ہونا اس کی اپنی غلطی نہیں ہے. اگر کوئی بد اصل ہے تو وہ خود سے بد اصل نہیں ہوا. اور اس سے اگلی آیت (١٤) یہ بات واضح کر رہی ہے کہ ان تمام برائیوں کی بنیاد اس شخص کے مال اور اولاد میں کثرت کی وجہ سے غرور میں مبتلا ہونا تھا.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تراجم میں اس قسم کی خرابی کیونکر آ گئیں؟ تو یہ بات تو جان لینی چاہیے جو قرآن نے بتائی کہ شیطان کی زندگی کا مقصد ہی راہ راست سے ہٹانا ہے. اور راہ راست سے ہٹانے کے لئے شیطان نے الله کے پیغام کو اور اس کےسابقہ  صحیفوں میں تحریف کروائی لیکن قرآن کی کیونکہ الله نے حفاظت کا اعلان کر دیا ہے تو قرآن کی الفاظ میں تو تحریف نہیں ہو سکی لیکن اس کے معنی اور مطالب میں تحریف کے لئے دوسری صدی ہجری کے عراق میں جھوٹی روایات وضع  کی گئیں. انہی روایات کے زیر اثر ہمارے بعض تراجم میں بھی نادانستہ طور پرغلطیاں ہوگئیں.
الله ہم سب کو توفیق دے کہ قرآن کو سمجھیں اور اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیں. اخر میں قرآن کی یاد دیہانی کے ساتھ اس کو ختم کرتے ہیں
وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ (سوره قمر، آیات ١٧)
اور البتہ ہم نے سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے پھر ہے کوئی سمجھنے والا

21 comments:

  1. آپ دھرنے والوں سے اختلاف رکھ سکتے ہیں البتہ کسی فاسق و فاجر منافق کا دفاع مت کریں آپکی تاویل سے غلط تائثر جا رھا ھے گویا کسی کا دفاع کر رھے ہیں

    ReplyDelete
  2. یہ جو تم نے تعویلات کیا ہے کس قرآن کی تفسیر میں ایسا لکھا ہے وہ حوالہ دو

    ReplyDelete
  3. محترم آپ کی تأویل عربی قواعد سے بلکل ہٹ کر ہے اور دراصل آپ قرآن پاک کے ترجمے میں تحریف کر رہے ہیں .لیکن آپ کے یہ چورن بکنے والے نہیں ہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس کی کوٸی دلیل دے دو بھاٸی مرنے کے بعد عمران خان نے نیں آنا ہے قبر میں

      Delete
    2. کیا تمھارے یہ الفاظ حضور کے کیے بھی ہیں جو خود زنیم کی معنی بیان فرما رہے ہیں۔
      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا «عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ» [68-القلم:13] ‏‏‏‏ کون ہے؟ فرمایا: ”بدخلق خوب کھانے پینے والا لوگوں پر ظلم کرنے والا پیٹو آدمی“ ۔ [مسند احمد:4/227:صحیح] ‏‏‏‏ لیکن اس روایت کو اکثر راویوں نے مرسل بیان کیا ہے

      Delete
  4. اصل میں زنیم تم خود ہو۔ تمہیں اختلاف دھرنے والوں سے نہیں۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے۔ مصطفی کریم کا دشمن حرامی ہوتا۔ چاہے وہ ترجمہ غلط کر کے رسول کریم سے دشمنی کرنے والا کیوں نہ ہو۔

    ReplyDelete
  5. رسول اللہ کا گستاخ نہ صرف خامی ھو گا بلکہ اسکا نسب بھی مشکوک ھو گا۔ترجمہ کچھ بھی کر لو گستاخ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خنزیر کی اولاد سمجھا جاے گا۔ میرا تو یہ ہی عقیدہ ھے اور یہ ہی ایمان ھے۔۔

    ReplyDelete
  6. نکاح کے بغیر پیدا ہونے والے بچے کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔ قصور ماں باپ کا ہوتا ہے۔ محمد اسد اور پکتھال اور دوسرے معتبر ترجمین نے اسکا ترجمہ اس ہی مفہوم کے ساتھ کیا ہے، جو کہ صاحبِ مضمون نے بیان کیا ہے۔ اللہ اِن کو جزاۓ خیر دے۔ آمین۔

    ReplyDelete
  7. جس کو زنیم کہا اس نے کیا مطلب لیا اور ماں سے کیا پوچھا تھا ؟

    ReplyDelete
  8. اگر ایسا ہی ترجمہ ہے تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر اپنی اصل کا کیوں پوچھا؟؟؟
    تاویلیں غلط کر کے جو بھی تاثر دے دیا جائے مگر۔۔۔۔
    پھر بھی۔۔۔۔

    تاجدارِ ختمِ نبوت:زندہ باد ذندہ باد ذندہ باد

    ReplyDelete
  9. اس تحریر کا لکھاری مجھے زمین لگتا ہے ہے حرامی کا بیج ہے یہ کتا بھونکتا ہے

    ReplyDelete
  10. جناب آپ نے یہ تاویل کہاں سے کر لی کہ زنیم کا مطلب اونٹ کے کٹے ہوئے کان کے گوشت کا ٹکڑا وغیرہ
    برائے کرم آپ گالی کی دی فی نیشن کر دیں اک بار نہیں تو مجھ سے رابطہ کریں میں سمجھاتا ہوں

    ReplyDelete
    Replies
    1. كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ {عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ} صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ قَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ لَهُ زَنَمَةٌ مِثْلُ زَنَمَةِ الشَّاةِ

      Delete
    2. اگر عربی آتی ہے تو سمجھ جاؤ گے

      Delete
  11. {عُتُلٍّ: سخت مزاج۔} اس آیت میں اس کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے اور ان تمام عیوب سے بڑھ کر ا س کاعیب یہ ہے کہ وہ ناجائز پیداوار ہے تو اس سے خبیث اَفعال کے صادر ہونے میں کیا تعجب ہے۔

    ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا : محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے میرے بارے میں دس باتیں بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 9 کے بارے میں تومیں جانتا ہوں کہ وہ مجھ میں موجود ہیں لیکن ان کی یہ بات کہ میں ناجائز پیداوار ہوں ، اس کا حال مجھے معلوم نہیں ، اب تو مجھے سچ سچ بتادے (کہ اصل حقیقت کیا ہے)ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا۔ اِس پر اُس کی ماں نے کہا کہ ’’تیرا باپ نامرد تھا ،ا س لئے مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا مال دوسرے لوگ لے جائیں گے، تو(اس چیز سے بچنے کے لئے ) میں نے ایک چَرواہے کو اپنے پاس بلالیا اورتو اس چرواہے کی اولاد ہے۔( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۶۷)

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس واقعے کو علما نے منگڑت اور بے سند کہا ہے
      اگر ہمت ہے تو اس کا سند دکھاؤ۔
      لیکن علم سے تمھارا کیا واسطہ ۔تم صرف گالیاں دیکر اپنے آپ کو زنیم ثابت کررہے ہو۔

      Delete
  12. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete